• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا نعمان نعیم

امت میں اختلاف کا ہونا ناگزیر ہے، ہر دور میں ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا، حقیقت میں یہ بھی اللہ کی قدرت کا مظاہرہ ہے، اسے کوئی مٹانے کے درپے ہوتو بھی مٹ نہیں سکتا، یہ الگ بات ہے کہ ہر اختلاف نہ تو مذموم ہے، نہ ہی محمود ، وہ اختلاف جس کا منشا وسبب قبیح ہو، وہ اختلاف یقینا ًمذموم ہے، اسی طرح ایسے امور کی بابت اختلاف جن میں اس کی گنجائش نہیں ،اس بناء پر کہ ہماری عقل کی پرواز وہاں تک نہیں یا اسے عقل سے زیادہ وحی کے مضبوط ذریعے سے مربوط کرکے رکھا گیا ہے، اس بابت کچھ معروضات پیش کی جارہی ہیں۔

اختلافات کے مذموم اسباب: قبیح اسباب کی بناء پر جو اختلافات رونما ہوتے ہیں ،وہ مذموم ہوجاتے ہیں۔ ایسے اسباب تو متعدد ہیں، مگر انہیں دو قسموں میں منحصر کیا جاسکتا ہے ایک وہ اختلاف جو جہل کی بنا ءپر ہو، دوسرے وہ اختلاف جو محض تعصب اور نفس پرستی کی بناء پر ہو۔

جہل کی بناء پر اختلاف: اختلاف کی وجوہات پر غور کیاجائے تو جہالت ایک اہم سبب ہے جس کی بناء پر اختلافات رونما ہوتے ہیں، مذہب سے ناواقفیت، احکام کے مابین درجات اور ان کی حدود سے عدم معرفت، جس امر میں گفتگو ہورہی ہے اس میں مہارت کافقدان اوراس کے لوازم سے جہل ایسا سنگین وخطرناک مرض ہے جس نے امت کو اختلاف وانتشار کا شکار بناکر رکھ دیا ہے، دینی مسائل میں محض عقل سے دریافت نہیں ہوتی، بلکہ دین کے اصول کی دریافت کے بعد صحیح راہ ملتی ہے، ہر شخص کی رائے زنی، ہر کس وناکس کی مداخلت، ہما وشما کی فتویٰ بازی نے امت کا شیرازہ پارہ پارہ کردیاہے۔ حدیث میں اس کی طرف اشارہ کیاگیا ہے:ترجمہ :اللہ تعالیٰ بندوں سے یک لخت علم کو سلب نہیں کرے گا،بلکہ علما کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ اپنا پیشوا جاہلوں کو بنالیں گے، پس ان سے سوال کیا جائے گا وہ بھی بلا علم، فتویٰ دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔(بخاری /کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم)

یہ ایسا ہی ہے کہ ایک انجینئر، ڈاکٹر کے نسخے میں دخل انداز ہوجائے تو مریض کو اپنی خیر منانی چاہیے، ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر معلوم نہیں ہے تو واللہ اعلم کہہ کر بات ختم کردے اور اگر اس کے بس میں دوسرے سے معلوم کرنا ہوتو کوشش کرلے۔

تعصب ونفس پرستی کی بناء پر اختلاف: تعصب بھی اختلاف کے باب میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، انسان جانتا ہے، پہچانتا ہے، مگر قومی ہمدردی، لسانی وزبانی ہم آہنگی، مسلکی اتحاد واتفاق، اور سیاسی اشتراک کی وجہ سے اختلاف کرتا ہے، یا پھر ان سب سے قطع نظر محض نفسانی خواہش کی تکمیل کے لیے اور جذبات کی تسکین کے لیے اختلاف کرتا ہے، یہود ونصاریٰ کا اپنے نبیوں سے، اور کفار مکہ کا اسلام ومسلمانوں سے اختلاف وعناد کا بنیادی داعیہ وکلیدی محرک یہی تعصب ہی تو تھا۔ 

حضرت ابوامامہؓ کی مرفوع حدیث میں اس قبیح داعیہ کی طرف واضح اشارہ موجود ہے:ترجمہ :کہا گیا ہے: مراد یہاں عناد اور قرآن میں بعض کا بعض سے تعارض پیدا کرکے شک پیدا کرنا ہے کہ اپنے مذہب و مشرب اور اپنے مشایخ کی آرا کی ترویج ہو، ان کا مقصود حق کی نصرت کرنا نہیں ہے، اور یہ صورت حرام ہے۔یہ دو اسباب بہت ہی اہم ہیں جو اختلاف کو جنم دیتے ہیں، باقی اور اسباب پر غور کیاجائے تو وہ سب انہی دو کے شاخسانہ ہوں گے۔(ترمذی: /، کتاب التفسیر، سورۂ زخرف)

ایسے امور کی بابت اختلاف جو محل اختلاف نہیں ہیں: جس طرح برے اغراض واسباب کی بناء پر اختلاف مذموم ہوتا ہے، اسی طرح ایسے امور کی بابت اختلاف بھی مذموم ہوجاتا ہے جو محل اختلاف نہیں ہیں۔ وہ بھی بنیادی طور پر دو ہیں، ایک عقائد میں اختلاف، دوسرے آیات متشابہات میں اختلاف۔

عقائد میں اختلاف: عقائد کے سلسلے میں اللہ پاک نے بالکل واضح ہدایات اپنے انبیا ءکو مبعوث کرکے دے دی ہیں، ہر زمان ومکان کے لحاظ سے انبیا ءکی شریعتیں تو بدلتی رہیں ،مگر امور اعتقادیہ میں فرق نہیں آیا، قرآن نے واضح کیا: اللہ نے اسی دین کو تمہارے لیے مشروع کیا، جس کی وصیت حضرت نوح ؑودیگر انبیا ءورسل کو کی گئی۔

البتہ سب کے لیے منہاج اور چلنے کی راہوں کو الگ الگ بنایا،تاکہ چلنا آسان اور عمل کرنا سہل ہوجائے، ان اعتقادی ونظریاتی امور میں جب بھی امت کی طرف سے تھوڑا بھی اختلاف کا شائبہ اللہ کے رسولﷺ کو محسوس ہوا، رحمۃللعالمین ﷺ نےفوراً تنبیہ فرمادی کہ کیا تمہیں اسی کا حکم دیاگیا ہے، کیا تمہیں دنیا میں اسی کے لیے بھیجا گیا ہے، تمہیں کیا ہوا کہ کتاب اللہ کی بابت اختلاف کرتے ہو، سابقہ قومیں اسی وجہ سے ہلاک ہوگئیں کہ انھوں نے اپنی کتابوں میں اختلاف کیا۔

متشابہات میں اختلاف: متشابہات بھی ان امور میں سے ہیں، جن میں اختلاف کی گنجائش نہیں، اس لیے کہ اختلاف کا مقصد صواب ودرستی کی تلاش اور اس کا حصول ہے، یہ انسان کی قدرت سے باہر ہے کہ متشابہات کی حقیقی مراد تک رسائی حاصل کرلے کیوں کہ انسان کو اس کا علم دیا ہی نہیں گیا ۔ اللہ نے اپنے پاس محفوظ رکھا ہے، بلکہ اس سلسلے میں کلام کرنے کی ممانعت فرمادی گئی، قرآن کریم نے ان لوگوں کو اہل زیغ وضلال سے تعبیر کیا ہے جو ان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ اختلاف کی یہ ساری انواع مذموم اور قابل اجتناب ہیں، کیوں کہ ان میں حق وباطل کا معرکہ ہے اور اللہ نے حق کو واضح کردیا ہے، اب ان کے خلاف جو بھی ہوگا باطل ہوگا۔ علما نے ہر دور میں باطل کو للکارا ہے، ان کے چیلنج کو قبول کیا ہے اور اس کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑے ہوگئے ، کسی بھی قسم کی مداہنت کو برداشت نہیں کیا۔

فروعی واجتہادی اختلاف: لیکن ان سب کے علاوہ ایک نوع فروعی واجتہادی اختلاف کی ہے، یہ اختلاف محمود ہے۔ جس طرح انبیاء کی شریعتیں الگ الگ رہی ہیں، فروعی مسائل میں ہر مجتہد کی رائے مختلف ہوتی ہے، کسی کو باطل نہیں کہا جاسکتا، اس قسم کا اختلاف امت کی آسانی کے لیے ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کا جملہ بہت ہی وقعت رکھتا ہے:مجھے اس بات سے مسرت نہ ہوتی کہ رسول اللہﷺ کے صحابہؓ میں اختلاف نہ ہوتا، اس لیے کہ ان میں اگر اختلاف نہ ہوتا تو گنجائش ورخصت نہیں رہتی۔

حضرت امام مالکؒ سے خلیفہ وقت نے درخواست کی کہ آپ موطا کے متعدد نسخے تیار کردیں، ہم اسے سلطنت کے ہر شہر میں بھیج دیں گے اور سب کو شاہی فرمان کے ذریعےاس پر متفق کردیں گے، مگر حضرت امام مالکؒ اس کے لیے راضی نہیں ہوئے اور اس ارادے سے باز رہنے کی تلقین فرمائی اور فرمایا: لوگوں کے پاس مختلف حدیثیں پہنچی ہیں ،وہ ان روایات کے موافق عمل پیرا ہیں، بعد کے خلیفہ نے بھی اس قسم کا مشورہ دیا، مگر حضرت امام مالکؒ نے اس قسم کا مشورہ پسند نہیں فرمایا، کیوں کہ اس کی وجہ سے امت مصیبت میں مبتلا ہوسکتی تھی۔ (مقدمہ اوجز المسالک)

صحابہؓ سے لے کر علمائے امت تک فروعی مسائل میں اختلاف رہا ہے، بسا اوقات ایک ہی عالم زمان ومکان کے فرق اور احوال وتقاضے کے بدلنے سے بھی مختلف نظر آتا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ وصاحبین کے مابین جہاں اختلاف کی اور بھی نوعیتیں ہیں، ایک بڑا حصہ اس قسم کے اختلاف کا بھی ہے۔ اصحاب فقہ اختلاف زمان ومکان سے تعبیر کرکے اسی کی طرف اشارہ بھی فرماتے ہیں۔ امام شافعی ؒ کے اقوال جدیدہ وقدیمہ میں تنوع اسی کا نتیجہ ہے۔ پھر اجتہادی مسائل میں حق وباطل کا اختلاف نہیں، بلکہ صواب واحتمال خطا کا اختلاف ہے، جس میں صواب کو پہنچنے والا گو ایک ہی ہوگا، مگر اجر کے مستحق دونوں ہی ہوتے ہیں، اس کی صراحت ووضاحت حدیث میں بھی فرمائی گئی ہے۔ اس لیے ایسے اختلاف کو مذموم نہیں،بلکہ محمود کہا جائے گا۔ (جاری ہے)

اقراء سے مزید