آپ کے مسائل اور اُن کا حل
سوال: ایک کمیٹی ہے جو ٹورنامنٹ کرواتی ہے، چھ ٹیمیں ہوتی ہیں، ہر ٹیم 3000 روپے انٹری فیس دیتی ہے، ان جمع کیے ہوئے پیسوں سے کمیٹی درج ذیل کام کرتی ہے:
1.جو گراؤنڈ کا کرایہ ہو گا، اسے ان پیسوں سے ادا کرے گی۔
2.ٹورنامنٹ میں کھیل کی ضروری اشیاء کا انتظام کیا جاتا ہے، جیسے گیند، کھلاڑیوں کے لیے پانی وغیرہ۔
3.اخیر میں ان ہی جمع شدہ پیسوں سے جیتنے والی ٹیم کو 6000 روپے دیے جاتے ہیں۔
4.سارے اخراجات نکالنے کے بعد کچھ رقم بچتی ہے تو وہ کمیٹی اپنے پاس رکھتی ہے۔کمیٹی کا مصارف کو مد نظر رکھتے ہوئے مذکورہ طریقے پر ٹورنامنٹ کروانا درست ہے یا نہیں؟
جواب: ٹورنامنٹ میں یہ شرط رکھنا کہ ہر ٹیم ایک مخصوص رقم جمع کرائے گی اور پھر اس رقم سے ٹورنامنٹ کے اخراجات نکالنے کے بعد جو رقم بچے گی وہ جیتنے والی ٹیم کو ملے گی، ٹورنامنٹ میں اس طرح کی شرط "قمار" یعنی جوے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز وحرام ہے،جس سے بچنا ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے۔
البتہ اس کی جائز صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اگر مختلف ٹیموں میں مقابلہ کروانے کی کوئی علیحدہ ٹورنامنٹ کمیٹی ہو ، جس کا تعلق کسی ٹیم سے نہ ہو، اور وہ کرکٹ ٹورنامنٹ کمیٹی ہر ٹیم سے مقابلے میں میدان کی اجرت اور دیگر اخراجات کی مد میں ایک متعین رقم وصول کرے اور یہ رقم کمیٹی کو مالک بنا کر دے دی جائے، پھر ٹورنامنٹ کمیٹی اس جمع شدہ رقم میں سے ٹورنامنٹ کے اخراجات کرے اور جیتنے والوں کو یا کھیل میں اچھی کارکردگی دکھانے والوں کو حسبِ صواب دید انعام دے اور اس بارے میں مکمل بااختیار ہو کہ کم یا زیادہ جتنا چاہے انعام مقر رکرے اور چاہے نقد رقم انعام میں دے یا کوئی ٹرافی وغیرہ دے تو یہ صورت جائز ہے۔ (فتاویٰ شامی، کتاب الحظر والاباحۃ ، فصل في البيع ، جلد : 6 ، صفحہ : 402 ،طبع : سعید - فتاویٰ ھندیہ، کتاب الکراھيۃ ، الباب السادس فی المسابقۃ ، جلد : 5 ، صفحہ : 324 ، طبع : رشيديۃ)