تحریر: ہارون مرزا۔۔۔۔۔ راچڈیل سپریم کورٹ آف پاکستان ایک ہی روز انتخابات کے معاملے پر اہم کیس کی سماعت کررہی ہے ، دوسری طرف اتحادی جماعتوں نے بھر پور مزاحمت کیلئے لنگوٹ کَس لئے ہیں، اتحادی جماعتوں کے سربراہان کا موقف ہے کہ پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہے اور وہی اہم فیصلے کرے گا مگر سپریم کورٹ الیکشن کے حوالے سے واضح احکامات د ے چکی ہے، پاکستان میں عام انتخابات کو لے کر کھینچا تانی وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے، سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے مطابق حکومت الیکشن سے انکاری نہیں تو کسی صورت کرانا بھی نہیں چاہتی، سیکورٹی، فنڈز کی عدم دستیابی اور دیگر کو مدعا بنا کر تاخیری حربے اب کسی سے پوشیدہ نہیں تو اپوزیشن جماعتیں ہر صورت انتخاب چاہتی ہیں، پاکستان تحریک انصاف جو بڑی اپوزیشن جماعت کے طو رپر ملک میں اپنا وجود رکھتی ہے، نے اپنی دو صوبائی حکومتوں پنجاب اور خیبر پختونخواکو ختم نئے انتخابات کیلئے کیا،سپریم کورٹ ٹائم فریم کا اعلان کر چکی ہے مگر واضح احکامات کے باوجود تاخیر کے بعد سیاسی اور عوامی حلقوں میں یہ تبصرے سنے جا رہے ہیں کہ عدلیہ اور حکومت کیا آمنے سامنے آ چکی ہیں، اس کے باوجود کہ حکومت کہہ چکی ہے کہ سپریم کورٹ کا وقار مقدم ہے،وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کو ضامن یا ثالث بننے کا حق نہیں دے سکتے وزیراعظم نے اتحادی جماعتوں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے 3رکنی بینچ کا فیصلہ پارلیمان نے قبول نہیں کیا، آج بھی حکومت اور پارلیمان تین چار کا فیصلہ آئینی و قانونی سمجھتی ہے اور 3/2یا پانچ دو کا فیصلہ غلط اور غیر آئینی و غیر قانونی ہے لیکن سپریم کورٹ تین رکنی بنچ کے ساتھ معاملات آگے لے جانا چاہتی ہے،وزیراعظم کا موقف ہے کہ پنچایت سپریم کورٹ کا کام نہیں،سپریم کورٹ کو ضامن یا ثالث کا حق نہیں دے سکتے ضامن بننا اور پنچایت کروانا سپریم کورٹ کا کام نہیں ان کا کام قانون کے مطابق فیصلے دینا ہے الیکشن ایک دن ہونے چاہئیں اور کب ہونے چاہئیں اس پر حکومتی اتحادی جماعتوں میں اتفاق رائے ہے اتحادی متفق ہیں کہ 13 اگست کو پارلیمنٹ کی مدت پوری ہورہی ہے الیکشن کی تاریخ اکتوبر یا نومبر میں بنتی ہے،قانونی حلقوں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ زیادہ بااختیار ہے اور جب معاملہ آئینی ہو تو اس کا فیصلہ سپریم کورٹ میں ہی ہو سکتا ہے مگر حکومت بضد ہے کہ پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہے ، وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت اتحادی جماعتوں کا اہم اجلاس بھی ہوا جس میں پی ٹی آئی سمیت سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کے عمل پر مشاورت کی گئی قانونی ٹیم نے سپریم کورٹ کی الیکشن فنڈز کے لئے ڈیڈلائن سے متعلق کیس پر بریفنگ بھی دی، اجلاس میں بھرپور مزاحمت کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے عزم کیا گیا کہ پارلیمنٹ بالادست ہے اور تمام اتحادی جماعتیں پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑی ہیں، پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے نگراں حکومتوں کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے سابق وفاقی وزیر نے آئین کے آرٹیکل 184/3 کی درخواست ایڈووکیٹ خواجہ طارق رحیم کی وساطت سے عدالت عظمیٰ میں دائر کردی جس میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے پنجاب، کے پی کے الیکشن کے لیے 21 ارب جاری کرنے سے انکار کردیادرخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئین کے مطابق 90 دن میں الیکشن آئینی تقاضا ہے آئین نگراں حکومتوں کی میعاد میں توسیع کی اجازت نہیں دیتا سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 184/3اور 187 کے تحت صاف شفاف انتخابات کے لیے احکامات صادر کرے دونوں صوبوں میں الیکشن کے انعقاد اور نئی حکومتوں کے امور سنبھالنے تک سپریم کورٹ نگرانی کرے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پرسیجر بل بھی لاہور رجسٹری میں چیلنج کردیا گیا ہے جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں بنچوں کی تشکیل چیف جسٹس کا انتظامی اختیار ہے ازخود نوٹسز میں اپیل کا حق آئین میں ترمیم کے بغیر ممکن نہیں ہے موجودہ ایکٹ سپریم کورٹ کے اختیارات پر قدغن لگانے کے مترادف ہے عدالت سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء کو کالعدم قرار دے، سپریم کورٹ اور حکومت کے درمیان آئینی لڑائی میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔