یوں توپاکستان کی تاریخ میں تین روز کے وزیراعظم کا تذکرہ بھی ملتا ہے لیکن تیز ترین زندگی کے بدلتے تقاضوں کے باعث سرعت رفتار جمہوریت کا شاندار ریکارڈ بھی اس خطے کے حصے میں آئے گا یہ شاید کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہو گا۔ جمہوریت کو صدیوں کے تہذیبی ارتقاء کا کرشمہ سمجھ کر اس کی تراش خراش کا سہرا اپنے سر سجانے اور اس کی شان وشوکت سے دنیا بھر کو آگاہ کرنے والے مغربی دانشور بھی انگشت بدنداں ہوں گے کہ ایسی کرشمہ سازی تو سرسبز و شاداب کہساروں کی جنت نظیر وادی کے زرخیز دماغوں کے سوا اب تک دنیا بھر میں کہیں سجھائی ہی نہیں دی۔ اس داستاں کا ہر اگلا مرحلہ حیرت کا بھرپور جہاں ہے جہاں انسانی دماغ کی کار فرمائی اوج ثریا کی بلندیوں کو چھوتی دکھاتی دیتی ہے امید ہے یہ داستاں قارئین کیلئے دلچسپی سے خالی نہیں ہو گی۔ معاملہ سردار تنویر الیاس کی رطب اللسانی سے شروع ہوتا ہے جب وہ‘ عین اس وقت جب ان کے اقتدار کا سورج پوری آب وتاب کے ساتھ اقتدار کے نصف النہار پر تھا‘ فرطِ جذبات میں کچھ ایسا کہہ گئے جو وزیر اعظم آزاد کشمیر کے منصب کے شایان شان نہ سمجھا گیا‘حالانکہ یہ پریکٹس وہ وزیر اعظم شہبازشریف کے سامنے بھی کر چکے تھے لیکن ہر بار قسمت یاوری نہیں کرتی اس بار زباں سے نکلے ہوئے الفاظ وبال جاں بن گئے عدالت کی توہین قابل گردن زدنی ٹھہری اور جس تیزی سے اقتدار کی بلندیوں پر پہنچے تھے اس سے کئی گنا تیزی سے منہ کے بل جا گرے‘ قسمت کا ہیر پھیر ایسا تھا کہ ان کے ممدوح علی امین گنڈہ پور بھی زیر عتاب تھے‘ اپنی ہی پارٹی کے قیوم نیازی کی حکومت کے خلاف سرمایہ کاری کرتے ہوئے شاید ان کے وہم وگما ن میں بھی نہ ہو گا کہ کاروبار الگ چیز ہے اور کاروبار سیاست الگ۔ ادھر مقدمہ زیر سماعت تھا تو دوسری طرف حساب کتاب کی بہترین سوجھ بوجھ سے آشنا زرخیز ذہن اپنے اصل کی طرف لوٹنے لگے‘ کچھ صدر آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود کو پیارے ہو گئے‘ صدر کو اس صورت حال میں مکمل طور پر اپنی سلطانی ایسی نظر آنے لگی کہ وہ اپنے قائد کو بھی آنکھیں دکھانے لگے‘ بنتا بھی تھا ایک شخص کے نااہل ہونے کے بعد 52کے ایوان میں پی ٹی آئی کے فارورڈ بلاک کے فیصلہ ساز 7ووٹ آپ کی جیب میں ہوں تو خوابوں کی تعبیر تو قریب تر نظر آتی ہی ہے اقتدار کو اپنے اتنے قریب پا کر وہ کریز کے دونوں طرف کھیلنے لگے، پیپلز پارٹی کے12،مسلم لیگ ن کے 7پیپلز پارٹی سردا ابراہیم گروپ اور مسلم کانفرنس کے ایک ایک ممبرب ھی انہیں اپنی دسترس میں دکھائی دینے لگے‘ تمام سیاسی دھڑوں سے ملاقاتوں کے دوران ان کے دامنِ دل میں پنپنے والی خواہش بھی سامنے آ گئی کہ وہ چند دنوں کیلئے کسی کو اس شرط پر وزیر اعظم منتخب کرانے کیلئے تیار ہیں کہ وہ ایم ایل اے کا الیکشن جیت کر وزیر اعظم کا منصب سنبھالیں گے‘ تب تک انہیں مہمان وزیر اعظم گوارہ ہے تاہم وہ اپنے جیتے جی چوہدری صحبت کے بیٹوں کو کسی قیمت پر وزیر اعظم نہیں بننے دیں گے‘ حسن اتفاق ہے کہ اگرچہ چوہدری یاسین اور چوہدری انوار الحق بھائی نہیں ہیں لیکن ان دونوں کے والد صاحبان کے نام میں مماثلت تھی اور بیرسٹر سلطان محمود کا اشارہ بھی انہی دونوں کی طرف تھا حالانکہ انہی میں سے ایک پہلے سردار تنویر کو وزیر اعظم بنوانے میں فعال کردار ادا کر چکا تھا لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد ان کی آپس میں بن نہ سکی حالانکہ وہ سپیکر بھی تھے‘ اگرچہ ان دونوں کی سیاسی وابستگیاں الگ الگ تھیں‘ سیاسی نظریات کے علاوہ دیگر بہت سے معاملات میں بھی بعد المشرقین تھا‘ بول چال بھی واجبی اور بطور سپیکر قانون ساز اسمبلی بولنے کا مناسب وقت نہ دینے پر چوہدری یاسین، چوہدری انوار الحق سے دل ہی دل میں ناراض بھی تھے لیکن تنویر الیاس کی طرح بیرسٹر سلطان کی زبان سے نکلے الفاظ بھی ان کے ذوق سلطانی کے دشمن بن گئے، اپنے والد صاحبان کی تضحیک پر مبنی ان الفاظ نے دونوں کے فاصلے لمحوں میں طے کر دیئے رمضان کی ایک سحری کے وقت صحبت نامی چوہدریوں کے بیٹوں نے رنجشیں اور سیاسی وابستگیوں کے فاصلے بھلا کر تاج سلطان محمود کے خواب چکنا چور کرنے کا اتنی خاموشی سے فیصلہ کیا کہ سیاسی موسم شناسوں کو بھنک تک نہ پڑنے دی۔ ادھر تحریک انصاف ساتھ چھوڑ کر جانے والوں کیخلاف کارروائی کی ٹھان کر بیٹھی تھی جس کیلئے آرڈیننس کی ضرورت تھی کیونکہ آزاد کشمیر کے موجودہ قوانین کے مطابق فلو رکراسنگ پرنااہل قرار نہیں دیا جا سکتا اور آرڈیننس صرف اسی صورت ممکن تھا کہ اسمبلی کا اجلاس نہ ہو رہا ہو لیکن خدا جانے یہ حسن اتفاق تھا یا حسن اہتمام کہ بطور اسپیکر اسمبلی چوہدری انوارالحق نے 19دسمبر 2022 کو شروع ہونے والا اجلاس 20اپریل 2023 تک اس وقت تک جاری رکھا کہ جب تک خود بلا مقابلہ وزیر اعظم منتخب نہیں ہو گئے‘ دیدہ وران کی ذہانت وفطانت کی اس وقت داد دیئے بغیر نہ رہ سکے جب انہوں نے سیکرٹری قانون ساز اسمبلی چوہدری بشارت حسین سے 20اپریل کو آدھی رات کے وقت نہایت متانت کے ساتھ وزیر اعظم آزاد کشمیر کے انتخابات کیلئے شیڈول جاری کرایا جس میں کاغذات نامزدگی جمع کرنے کا وقت 12:40 تا 12:55 رکھا گیا کہ اگر کسی کو اس عظیم انتخاب کا پتہ چل بھی جاتا تو گھر سے پہنچنے یا کاغذات جمع کرانے تک وقت نکل جاتا البتہ اس فول پروف انتظام کا فائدہ یہ ہوا کہ کسی نے ان کے مقابلے میں کاغذات جمع کرانے کی جسارت نہ کی اگلے پندرہ منٹ کاغذات کی جانچ پڑتال کیلئے مختص تھے لیکن کمال محبت سے مزید اگلے دس منٹ کاغذات واپس لینے کیلئے بھی مقرر کئے گئے‘ رات ایک بج کر بیس منٹ پرحتمی امیدوارکی فہرست آویزاں ہو گئی اور یوں جمہوریت کے ماتھے پہ حسیں جھومر سجاتے ہوئے چوہدری انوارالحق بلا مقابلہ وزیر اعظم منتخب ہو گئے لیکن انہوں نے اسمبلی سے ووٹ لینے کا فیصلہ بھی کیا اور48 ووٹ حاصل کر کے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا 4ووٹ کاسٹ نہ ہو سکے ورنہ شاید وہ بھی انہیں ہی ملتے، پی ٹی آئی نے اس شاندار کامیابی پر مٹھائیاں تقسیم کیں اور سوشل میڈیا پر اپنی کامیابی کا جشن بھی منایا لیکن برا ہو چوہدری انوار کی پکی زبان اور وعدہ وفائی کا کہ انہوں نے اگلی صبح اپنے اتحادیوں کے دو افراد کو وزارتیں دے دیں، ادھر جب عمران خان نے کشمیر سے پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کیا تو 31میں سے پورے 7ارکان زمان پارک پہنچے سردار تنویر الیاس کے انتخاب کے موقع پر قیادت کے سامنے چیخ چیخ کر احتجاج کرنے والے اس وقت کے وزیر اعظم قیوم نیازی بار بار یہ کہتے دکھائی دے رہے تھے کہ یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ سرمائے کی خاطر کوئی پارٹی اپنی ہی حکومت گرا دے، بہرحال پندرہ منٹ میں وزیر اعظم آزاد کشمیر کے حالیہ انتخاب پر شرق تا غرب جمہوریت کے علمبردار سراپا حیرت انہیں مبارکباد پیش کر رہے ہیں جنہوں نے کمال ذہانت سے وزارت عظمیٰ کے خواب دیکھنے والے بڑے بڑے جغادریوں کی لمحوں میں چھٹی کرا دی‘ سنا ہے چند ہی روز میں آزاد کشمیر سے کوئی اور بھی بڑی خبر آئے گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)