• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:نعیم نقشبندی۔۔۔۔ لندن
حکومت پاکستان کی تارکین وطن کیلئے بغیر قرعہ اندازی حج اسپانسرشپ اسکیم کے مطابق برطانیہ سمیت دیگر ملکوں میں بسنے والے تارکین وطن اس سال بغیر قرعہ اندازی کے پاکستان سے حج کیلئےسفر اور فریضہ حج ادا کر سکتے ہیں جس کیلئے حج پیکیج کے اخراجات ڈالرز کی شکل میں ادا کرنا ہوں گے۔ مزید یہ کہ درخواست گزاروں کے پاس پاکستانی مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ کا ہونا لازمی ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے یہ بہت اچھی اسکیم ہے جس سے اوورسیز پاکستانیز برطانیہ، یورپ سمیت دیگر ملکوں کے مقابلے میں کم بجٹ میں حج کا فریضہ ادا کر سکیں گے اور اس کاوش کو اوورسیز کمیونٹی لائق تحسین قرار دیتی ہے جس میں تارکین وطن اور حکومت پاکستان دونوں کا مفاد ہے، مگر دوسری جانب برطانیہ اور یورپ سمیت دیگر ممالک میں بسنے والے تارکین وطن کیلئے مشین ریڈایبل پاسپورٹ کا حصول انتہائی مشکل بنا دیا گیا ہے، یہاں اس پہلو کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اگر اس سکیم کا اعلان مارچ 2023کے آخری ہفتے میں کیا گیا تو وزارت خارجہ، وزارت داخلہ اور وزارت حج وعمرہ کا اس امر کو ملحوظ خاطر رکھنا بہت ضروری تھا کہ حج 2023میں اوورسیز کمیونٹی بالخصوص دوہری شہریت والے درخواست گزاروں کیلئے اس ٹائم فریم میں پاکستانی پاسپورٹ کا حصول ممکن ہے؟ اور اگر ممکن نہیں تو اس کو کیسے ممکن بنایا جائے تاکہ تارکین وطن بآسانی اس سپانسر شپ سکیم سے مستفید ہو سکیں، پہلے تو برطانیہ ویورپ کے سفارتخانوں میں پاسپورٹ کی اپائنٹمنٹ ہفتوں تک نہیں ملتی اور اور جب اپائنٹمنٹ مل بھی جائے تو ارجنٹ فیس کے باوجود پاسپورٹ کی ڈلیوری میں تاخیر ہے اور دوسری جانب ایسے تمام درخواست گزار جن کے اباؤاجداد تو پاکستانی ہیں مگر وہ برٹش بورن یا کسی دوسرے ملک مثلاً یورپ، امریکہ، کینیڈا یا آسٹریلیا میں پیدا ہوئے ہیں اور وہ زندگی میں پہلی بار پاکستانی پاسپورٹ بنا رہے ہیں تو ایسی صورت میں پاسپورٹ آفس ان کی درخواست کو سیکورٹی چیک کیلئے بھیجوا دیتے ہیں جس میں چار سے چھ ماہ کا دورانیہ درکار ہے۔ اور ایسی صورت میں وہ تمام تارکین وطن اس سپانسر شپ سکیم سے مستفید ہونے سے قاصر ہیں چونکہ ان کو پاسپورٹ حج 2023کے ٹائم فریم میں ملنا ناممکن ہے۔ ایسی صورت میں وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ اوورسیز کمیونٹی کیلئے آسانیاں پیدا کرتے ہوئے نئے درخواست گزاروں کیلئے پالیسی میں نرمی کر کے سفارت خانوں اور ان میں موجود پاسپورٹ آفسز کو پاسپورٹ کے جلد اجراء کے عمل کو یقینی بنانے کیلئے ہدایات جاری کریں تاکہ حج سپانسر شپ سکیم سے بلا تفریق زیادہ سے زیادہ سمندر پار پاکستانیز مستفید ہو سکیں اور بدلے میں موجودہ معاشی بحران میں پاکستان میں حج سپانسرشپ سکیم کے زریعے ڈالرز کی شکل میں زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کا حصول ممکن بنایا جا سکے، دریں اثناء برطانیہ و یورپ کے حوالے سے اس بات کو اجاگر کرنا، وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ کے نوٹس میں لانا اشد ضروری ہے کہ وزارت داخلہ کی جانب سے اوورسیز کمیونٹی کیلئے پاسپورٹ کے حصول کے حوالے سے جاری کردہ پالیسی، ہدایات اور ایس او پیز پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا اور بیشتر سفارت خانوں میں موجود پاسپورٹ افسران ایسے تمام درخواست گزاروں کو جو کہ وزٹ، سٹوڈنٹ، ورک پرمٹ یا شادی ویزے پر برطانیہ و یورپ گئے بعد میں ان کا پاسپورٹ، ویزا کے ساتھ ساتھ ایکسپائرڈ ہو گیا اور نئے پاسپورٹ کے اجراء یا تجدید کیلئے کسی بھی سفارت خانے کے پاسپورٹ آفس جاتے ہیں تو پاسپورٹ افسران وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر من مانی کرتے ہیں حالانکہ وزرات داخلہ کے نوٹیفکیشن میں واضح ہدایات ہیں کہ پاسپورٹ کا اجرا متعلقہ ملک کے ویزا کے ویلیڈ ہونے یا نہ ہونے سے مشروط نہ ہے بلکہ صرف پاکستانی نائیکوپ کارڈ اور نیشنل سٹیٹس ویری فکیشن سے ہے، انکار کی صورت صرف اگر درخواست گزار اسائلم سیکر ہو، مگر اس کے باوجود کمیونٹی کو بلاوجہ تنگ اور پریشان کرنے کی سیکڑوں شکایات موجود ہیں جس کا وزیر داخلہ سختی سے نوٹس لیں تاکہ اوورسیز کمیونٹی کیلئے آسانیاں پیدا کی جا سکیں اور اوورسیز کمیونٹی کا اداروں پر اعتماد بحال ہونے کے ساتھ ساتھ نئی نسل یورپ اور مڈل ایسٹ انوسٹمنٹ کی بجائے پاکستان میں انوسٹمنٹ کرے۔ تارکینِ وطن حکومت پاکستان سے توقع رکھتے ہیں کہ ان کے جان و مال اور عزت کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
یورپ سے سے مزید