اپنی نیند بھلا کر سلانے والی، آنسو گراکر ہنسانے والی، تپتی دھوپ میں سایہ دار درخت بننے والی، ہر قدم پر جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کرنے والی ،ہر مشکل کا سامنا ڈٹ کر کرنے والی ہستی کا نام ہے ’’ماں ‘‘۔ یہ دنیا کا وہ پیارا لفظ ہے، جس کو سوچتے ہی ایک محبت، ٹھنڈک، پیار اور سکون کا احساس ہوتا ہے۔ ماں کی عظمت پر کچھ لکھنا اور دی گئی تر بیت کے بارے میں بتانا اتنا آسان نہیں۔ تپتی دھوپ میں اس کا دست ِشفقت شجر ِسایہ دار کی طر ح سائبان بن کر اولاد کو سکون کا احساس دلاتا ہے۔
خود بے شک کانٹوں پر چلتی رہے، مگر اولاد کو ہمیشہ پھولوں کے بستر پر سلاتی ہے اور دُنیا جہاں کے دکھوں کو اپنے آنچل میں سمیٹے لبوں پر مسکراہٹ سجائے رواں دواں رہتی ہے ،اِس سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی دُنیا میں پیدا نہیں ہوئی، آندھی چلے یا طوفان آئے، اُس کی محبت میں کبھی کمی نہیں آتی۔
وہ اولاد کی بہترین تربیت کرنے کے لیے ہر کردار بہ خوبی ادا کرتی ہے۔ بغیر بولے وہ بچے کی ہر بات سمجھ جاتی ہے۔ چہرہ دیکھ کر پریشانی کا اندازہ لگا لیتی ہے۔ بچے چاہے عمر کے کسی بھی حصے میں پہنچ جائیں لیکن ماں کو ان کی فکر ہمیشہ رہتی ہے۔ دنیا کا سب سے پُر خلوص رشتہ ماں کاہوتا ہے۔ خوش گوار زندگی گزارنے کے گُر بچپن سے ہی سیکھا نا شروع کردیتی ہے۔ اس کی طرف سے کی گئی نصیحتیں پوری زندگی کام آتی ہیں۔
یہ ماں کی دعائیں ہی تو ہوتی ہیں جو بچوں کو فرش سے عرش پر پہنچا دیتی ہیں۔ ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو ’’ماؤں کا عالمی یوم‘‘ منایا جاتا ہے ،اس موقع پر ہم نے پاکستان کے سابق صدر ،ممنون حسین (مرحوم ) کی اہلیہ، محمودہ ممنون سے گفتگو کی، ان کی ماں نے ان کی تربیت کیسی کی، انہوں نے اپنے بچوں کی تربیت کس طرح کی ،آج کل کی ماؤں کوکس طرح کی تربیت کرتا دیکھ رہی ہیں۔ اس بارے میں انہوں نے ہمیں کیا بتایا ،نذر قارئین ہے۔
……٭٭……٭٭……٭٭……
گفتگو کا آغاز اپنی ماں کی تربیت سے کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میری ماں نے میری تربیت نہ مار سے کی اور نہ ہی ڈانٹ سے بلکہ پیار ،محبت ،شفقت اور باتوں سے کیں، انہوں نے ہم بہنوں اور بھائی کی بہترین تر بیت کرنےمیں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے بہترین تربیت کی۔ وہ دنیاوی اور دینی دونوں تعلیم میں بھرپور توجہ دیتیں۔ حالاں کہ وہ خود تعلیم یافتہ نہیں تھیں لیکن ہم پر تعلیم کے معاملے میں سختی کرتیں تھیں۔انہوں نے بہت چھوٹی عمر سے ہی ہمیں اخبار پڑھنے اور کتابیں پڑھنے کا عادی بنادیا تھا۔ اس وقت ہمارے گھر اخبار نہیں آتا تھا لیکن ہمیں پڑھنے کا شوق بہت تھا تو امی نے ہمارے لیے اخبار لگا دیا حالاں کہ اُس وقت کسی کے گھر اخبار آنا بہت بڑی بات ہوتی تھی۔
جن خاتون سے ہم قر آن شریف پڑھتے تھے وہ ہر اتوار درس میں جاتی تھیں، امی ہمیں ان کے ساتھ بھیجا کرتی تھیں ،کم عمر سے ہی نماز پڑھنے کی عادت ڈال دی گئی تھی، مجھے یاد نہیں کہ میں نے نماز کب سے پڑھنی شروع کی۔میری امی نے بچپن میں ہمیں صحیح ،غلط اور اچھے برے کا فرق بتا دیا تھا اور وہ سبق مجھے آج تک یاد ہے۔ کوئی بھی غلطی کرنے پر پیار و شفقت سے سمجھاتیں۔ اگر ہم بہنیں گھر میں اکیلے ہوتیں تو ہمیں دروازہ کھولنے کی اجازت نہیں تھی۔ صبح اسکول جاتے وہاں سے آنے کے بعد برابر والے گھر میں قرآن پڑھنے جاتے۔
غرض یہ کہ ہرکام کرنے کا وقت مقرر تھا۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ اُس وقت کے بچوں کو جو بات ایک مرتبہ کہہ دی جاتی تھی وہ ذہن نشین کرلیتے تھے،کسی بات پر انکار کرنے کی ہمت نہیں ہو تی تھی۔ مجھے یاد ہے امی نے صرف ایک مرتبہ کہا تھا کہ اب بڑی ہو رہی ہو، دوپٹہ پہنا کرو۔ ہمیں بغیر دوپٹے دروازہ کھولنے کی اجازت نہیں تھی۔ میری امی کا اندازِ گفتگو بہت دھیما تھا وہ بہت آہستہ آواز میں بات کرتی تھیں ۔میری آواز تھوڑی تیز تھی اور جب غصہ آتا تھا تو بات بھی چیخ چیخ کر کر تی تھی تو میری امی کہتی تھیں تمہارا گزارا نہیں ہو گا تم بہت تیز آواز میں بات کرتی ہو، میری یہ عادت ان کو ناگوار گزر تی تھی۔
وہ ہمیشہ دھیمی آواز میں بات کرنے کا کہتی تھیں۔ جب میں تھوڑی اور سمجھدار ہوئی تو امی نے مجھے ایک نصیحت کی کہ شادی کے بعد میاں، بیوی میں لڑائی ہوتی ہے لیکن جب مرد کو غصہ آرہا ہو تو خاموشی اختیار کرلو ،اُس وقت ایک لفظ نہیں بولو۔ بعد میں جب مرد کا غصہ ختم ہو جائے تو پھر اپنی بات کہو جو بھی شکوے ،شکایت ہو وہ کہہ دو ۔اور جتنی جلدی ہو سکے صلح کرلو زیادہ دیر ناراض نہیں رہو ۔ان کی یہ نصیحت میں نے بلو سے باندھ لی تھی اور ساری زندگی اس پر عمل بھی کیا ۔اگرمیں یہ کہوں کہ امی کی اس نصیحت کی وجہ سے ایک کام یاب ازدواجی زندگی گزاری تو غلط نہیں ہوگا۔
ایک بات اور جو انہوں نے مجھے سے کہی تھی کہ کبھی بھی کسی کا غصہ اپنے بچوں پر نہیں اتارنا اور کبھی گھر میں اکیلے میں بچے پر غصہ آئے تو اس کو مارنا نہیں ،کیوں کہ جب انسان کو غصہ آتا ہے تو اس کا اپنے آپ پر کنٹرول نہیں رہتا اور وہ غصے میں کچھ بھی غلطی کرسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت کے لوگ سیدھے سادھے تھے، گھر کےماحول سادہ ہوتے تھے، رہن سہن، انداز ِتربیت غرض یہ کہ ہر کام میں سادگی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ وقت واقع بہت اچھا تھا تو غلط نہ ہوگا ۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ اُس وقت کی ماؤ ں میں صبر ،برداشت اور تحمل تھا جو کہ آج کی ماؤں میں نہیں ہے۔
اپنے بچوں کی تربیت کرتے وقت اپنی ماں کی تر بیت کو اپلائے کیا یا اپنے زمانےکےمطابق بچوں کی تربیت کی؟ اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ مجھے اپنی ماں کی دی گئی تربیت کا احساس جب ہوا جب میں خود ماں بنی ،ماں بننے کے خوب صورت احساس کو لفظوں میں بیان کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ ماں بننے کے بعد میں نے پوری کوشش کی کہ بچوں کی تربیت بالکل ویسی کروں جیسے میری ماں نے میری کی تھی، ان کو ویسے ہی ہر بات سِکھاتی جیسے میری ماں مجھے سِکھاتی تھیں۔ میری ماں کی عادت تھی کہ وہ ہمیں سونے سے پہلے اسلامی واقعات سناتی تھیں ،میں نےان کی یہ عادت اپنائی اور جب بچے سونے لیٹتے تو میں بھی ان کواسلامی واقعات سناتی۔ لیکن ان کی تربیت کچھ زمانے کے لحاظ سے بھی کی ،کیوں کہ وقت اور زمانے کے مطابق تربیت کرنا بھی ضروری ہے۔
آج میں یہ بات مانتی ہوں کہ میرا بڑا بیٹا پڑھائی میں صحیح طر ح سے آگے اس لیے نہیں بڑھ سکا، کیوں کہ میں نےا س کے ساتھ بہت زیادہ سختی کی۔ اس بات کا اقرار بیٹوں اور بہوؤں کے سامنے بھی کرتی ہوں ۔ پہلے بچے کی تربیت میں تو بہت سی غلطیاں ہوتی ہیں جن کو دوسرے بچے میں صحیح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میرا انداز ِتر بیت پہلے بیٹے میں تھوڑا سخت رہا لیکن دوسرے اور تیسرے بیٹے کی تربیت نرم انداز میں کی لیکن جہاں سختی کی ضرورت پیش آتی تھی وہاں سختی بھی کی۔ بچوں کی ہر کام کی روٹین بنائی ہوئی تھی۔ وہ اس کے مطابق اپنے تمام کام کرتے تھے۔ گھومنے جانے کا ،کھانا کھانے کا ،سونے کا،پڑھنے کا ہر کام کا وقت مقرر تھا۔
مجھے یاد نہیں کہ کبھی کوئی ایسا دن گزرا ہو ،جس دن میرے بچے اسکول سے آکر دوپہر میں سوئے نہ ہو۔ مجھے آج بھی تین بجے وہ ٹائم یاد آتا ہے،دوسرے اور تیسرےکی تربیت میں پوری کوشش کی کہ ان غلطیوں کونہ دہرائوں جو بڑے کی تر بیت میں سرز دہوئیں تھیں۔ لہٰذا دوسرے کی پہلے سے بہتر اور تیسری کی تو سب سے اچھی کی ،کیوں کہ جو غلطیاں ان دونوں کی تربیت میں ہوئی تھیں وہ اس کی تربیت میں نہیں کی۔ بڑوں کا ادب و احترام کرنا ،پڑھائی میں بھر پور توجہ دینا ،کچھ بھی ہو جائے کبھی کسی کاحق نہیں کھانا ،ہر کسی کے ساتھ رحمی دلی اور شفقت سے پیش آنا ،کبھی کسی کا نقصان نہ کرنا۔ یہ ساری باتیں میری تربیت کا لازمی حصہ رہیں۔ لیکن آج مجھے اپنی ایک غلطی کا احساس ہوتا ہے کہ میں نے اپنے بچوں کو اس طر ح دینی نہیں بنایا ،جس طر ح میری ماں نے مجھے بنایا تھا ۔ اس بات کا افسوس مجھے آج بھی ہوتا ہے۔
پہلے کے بچوں کی تربیت کرنا زیادہ مشکل تھا یا اس دور کے بچوں کی تربیت کرنا مشکل ہے ؟بچوں کی تر بیت کرنا ہر دور میں مشکل رہا ہے ،کیوں کہ ہر دور میں اچھی ،بری چیزیں ہوتی ہیں تو بچوں کو ان کا فرق بتا نا اور دور رہنے کا سبق دینا ضروری ہوتا ہے ،مگر میں یہاں یہ بات ضرور کہنا چاہوں گی کہ پہلے کے بچے واقع سیدھے ہوتے تھے دس میں سے کوئی ایک ضدی یا شرارتی ہوتا تھا لیکن آج کے بچے اس کے بر عکس ہیں۔ پہلے دور کے بچوں میں باہر کے کھانے کا کا کوئی تصور نہیں تھا ،مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میرے بچوں نے چھوٹی عمر میں کبھی باہر سے کچھ کھانے کی فرمائش کی ہو ۔ایک بات یہ بھی ہے کہ اُس وقت کے بچوں کو جو بات ایک مرتبہ بتا دی جاتی تھی وہ ذہن نشین کرلیتے تھے۔
آج آپ اپنی تیسری نسل کی تربیت ہوتے دیکھ رہی ہیں تو اپنی بہوؤں کو تربیت کرتے کیسا پا یا؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مجھے یہ بتاتے ہوئے بہت خوشی ہورہی کہ میری تینوں بہوئیں اپنی بچوں کی تربیت بہت اچھی کررہی ہیں، میری بڑی پوتی کی بھی ایک بیٹی ہے وہ بھی اپنی بچی کی تربیت اچھے طریقے سے کررہی ہے۔ جو نصیحتیں میری ماں نے مجھے کی تھیں، میں وہ آج اپنی بہوؤں اور پوتی کو کرتی ہوں ، جو غلطیاں میں نے کیں، اس کے بارے میں ان کو بتاتی ہوں۔ ان کو سمجھاتی ہوں کہ کبھی کسی اور کا غصہ بچے پر نہ اتارنا ،اکیلے میں بچے کو کبھی نہیں مارنا ۔جہاں پر یہ لوگ غلطی کرتی ہیں ان کو سمجھاتی ہوں کہ یہ اس طرح نہیں بلکہ اس طر ح کرو۔
بچوں کو پیار ،محبت سے سمجھاؤ ،انہیں نماز پڑھنے کا پابند بنائو ۔ ان کے ساتھ وقت گزاروں ،ان سے باتیں کرو ۔ ہر بات پیار ومحبت سے سمجھائو ،ایک بات یہ بھی ہے آج کل کی ماؤ ں کے پاس باہر کےاپنے اتنے کام ہوتے ہیں کہ وہ بچوں کو صحیح طر ح سے توجہ اور وقت نہیں دے پاتیں اور بچّوں کے خراب ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔ ماں کی توجہ نہ ملنے پر بچے ضدی اورچڑ چڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ آج کا دور بہت خراب ہے اس میں بچوں کی تربیت بہت سنبھل کر اور محتاط رہ کر کرنے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا نئ نسلوں کو تباہ کررہا ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا تربیت کی ضرورت صرف لڑکیوں کو ہوتی ہےلڑکوں کو نہیں لیکن میں کہتی ہوں اس وقت لڑکوں کی تربیت بھی بہت ضرور ہے بلکہ ان کی تربیت کرنا زیادہ مشکل کام ہے ۔اس تیز رفتار دور میں ان کی ہر چیز پرنظر رکھنا لازمی ہے۔
آج کل کی ماؤں کو تربیت کے حوالے سے کیا مشورہ دینا چاہیں گی؟ آج کل کی ماؤں کو یہ کہنا چاہوں گی کہ اپنی دن بھر کی مصروفیات میں سے بچوں کے لیے وقت لازمی نکالیں، ان کو وقت دیں، ورنہ آپ کے بچے آپ سے دور ہو جائیں گے، مائیں اپنی جان چھڑانے کے لیے بچوں کو موبائل دے دیتی ہیں وہ پورا دن اس میں مشغول رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ موبائل تربیت کا لازمی حصہ بن گیا ہے۔
اگر بچہ آپ کی بات پہلی مرتبہ میں نہیں سن رہا تو اسے بار بار کہتی رہیں، وہ بات اس کے ذہن میں لکھتی جائے گی اور جب وقت آئے گاتو وہ اس پر عمل کرےگا۔ میری یہ نصیحت ذہن نشین کرلیں کہ اکیلے میں بچے کو کبھی نہیں ماریں، چاہے کتنا غصہ آرہا ہو، اگر کوئی بات سمجھنے کے لیے غصہ کرنا ہو تو اُس وقت کریں جب کوئی گھر میں موجود ہو۔ بچوں کو ہر بات پیا رو محبت سے سمجھائیں، وہ پیار سے جلدی سیکھتے ہیں۔
ایک بات اور جو میں آج کل کی ماؤں کو کہنا چاہوں گی اگر آپ بچے کے نخرے یا ضد برادشت نہیں کرسکتیں تو ان کو خود نہ پڑ ھائیں، ٹیوشن بھیج دیں یا ٹیوٹر لگوا دیں۔ آپ پڑھانے کے دوران چھوٹی چھوٹی باتوں پر بچوں پرجو غصہ کریں گی، اس سے ان کی تربیت خراب ہوگی۔ حالاں کہ ایک پڑھی لکھی ماں کو اپنے بچے کو خود پڑھانا چاہیے لیکن صرف صبر، برداشت اور تحمل کی کمی کی وجہ سے وہ یہ کام بہ خوبی نہیں کرسکتیں۔ لہٰذا اپنے اندر برداشت پیدا کریں اور بچوں کے ساتھ گزارنے کے لیے ایک وقت مقرر کریں۔