• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں واقع شمالی علاقے کی دوہزار سالہ سے زائد قدیم گندھارا تہذیب بدھ مت کے عظیم الشان ماضی کی آئینہ دار ہے جس کی جڑیں پہلی صدی عیسوی سے ساتویں صدی تک جاملتی ہیں،پاکستان کے تاریخی شہر ٹیکسلا سے سوات، گلگت بلتستان تک جابجا بدھ مت کے مقدس اسٹوپے اور مذہبی مقامات موجود ہیں،ایک رپورٹ کے مطابق گندھارا تہذہب کے انیس آثارِ قدیمہ صوبہ خیبرپختونخوا میں، پانچ سندھ میں، ایک بلوچستان میں، دس پنجاب میںاورچار گلگت بلتستان میں واقع ہیں،وفاقی دارالحکومت میں شاہ اللہ دتہ کے پراسرار غار اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ زمانہ قدیم میں موجودہ اسلام آباد کا علاقہ بھی عظیم گندھارا تہذیب کا حصہ رہاہے۔تاریخ کی سب سے قدیمی یونیورسٹی گندھارا تہذیب کے مرکز ٹیکسلا میں قائم کی گئی تھی جہاں عظیم فلسفی اور استاد کوٹلیہ چانکیہ علم و حکمت کے موتی اپنے شاگردوں میں بکھیرا کرتا تھا، روایات کے مطابق امن و آشتی کا پیغام عام کرنے کے بعد گوتم بدھا اس دارِ فانی سے کوچ کرگیا تو آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد راکھ کو آٹھ مختلف اسٹوپوں میں محفوظ کردیا گیا جن میں ٹیکسلا میں واقع دھرم راجیکا کا اسٹوپاسب سے بڑا تھا،ہر اسٹوپے کے گنبد پر سات چھتریاں تعمیر کی گئیں جو سات آسمانوں کی عکاسی کرتی ہیں، پاکستان کے مختلف علاقوں میں واقع اسٹوپے آج بھی قدرے بہتر حالت میں موجود ہیں۔تاریخی طور پر موریہ دورِ حکومت سے گپتاشاہی خاندان کے زمانے میں فن سنگ تراشی کو عروج حاصل ہواتو ٹیکسلا میں گوتم بدھا کے مجسمے بنائے گئے، پاکستان کے زیرانتظام گلگت بلتستان کی پہاڑی چٹانوں پر صدیوں پرانے بدھا کے مجسمے اور مذہبی نقوش آج بھی موجود ہیں جن میں آٹھویں صدی عیسوی میں تراشے جانے والے کارگاہ بدھ کے نایاب مجسمے کونمایاں مقام حاصل ہے ۔عمومی طور پر گندھارا دورکو بدھ مت کے عروج سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن اس زمانے میں جین مت، زرتشی اور ہندودھرم کے ماننے والوںکو بھی مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی،یہی وجہ ہے کہ بدھا کے مختلف اسٹوپوں کے آس پاس جین مت، آتش پرستوں اور ہندودھرم کے مندراور عبادتگاہیں بھی واقع ہیں۔ اگر دنیا کی آبادی کا جائزہ لیا جائے توآج عالمی آبادی کا لگ بھگ سات فیصد حصہ (تقریباََ 520ملین افراد)بدھ مت کے پیروکاروں پر مشتمل ہے،ایشیاکے بیشتر ممالک بشمول جاپان، کوریا،چین، میانمار، تھائی لینڈ، کمبوڈیا ،ویت نام، سری لنکا، سنگاپور، بھوٹان،ہانگ کانگ، لاؤس اور منگولیا وغیرہ میں بدھ مت کے ماننے والوں کی کثیر تعداد بستی ہے، دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت چین کی آبادی کا اٹھارہ فیصد حصہ (244ملین افراد)بدھ مت کے پیروکار وں پر مشتمل ہے،ایشیا پیسیفک کے یہ تمام ممالک عالمی سفارتی محاذ پر پاکستان کے دوست ممالک سمجھے جاتے ہیں، اسی طرح روس، امریکہ اور مغربی ممالک میں بھی بدھ مت کے ماننے والے موجود ہیں، گندھارا سماج میں اپناکردار اداکرنے والے جین مت اور زرتشت کے پیروکاروں کی بڑی تعداد بھی یورپ، امریکہ،کینیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ میں بستی ہے۔برصغیر کی تقسیم کے بعد غیرمسلموں کی بڑی آبادی نقل مکانی کرگئی تو گندھارا دور کے مختلف مقدس مقامات بھی زبوں حالی کا شکار ہوتے چلے گئے،پڑوسی ملک میں بابری مسجد کی شہادت کے ردعمل میں یہاں بھی مختلف مندروں کو نشانہ بنایا گیا، تاہم گزشتہ چند برسوں سے ایسی خبریں میڈیا کی زینت بنی ہیں کہ تھائی لینڈ،کوریا ، سری لنکا سمیت مختلف دوست ممالک کے بُدھوں نے پاکستان میں واقع گندھارا مقامات کی یاتراکا سلسلہ شروع کردیا ہے۔، دنیا کے ہر بدھا کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار گندھارا دور میں قائم کردہ استوپوں کی یاترا کرے یا کم از کم گندھارا علاقے کی مقدس مٹی بالخصوص ٹیکسلا میں تیارکردہ بدھا کی مورتی خوشحالی اور برکت کیلئے اپنے پاس رکھے۔آج اکیسویں صدی میں گندھارا آرٹ کو کلاسیکی یونانی ثقافت اور بدھ مت کا ثقافتی اشتراک قرار دیاجاتاہے، جس میں سنگ تراشی، مجسمہ سازی، تصویرکشی اور مختلف نقوش پر مشتمل فن پارے شامل ہیں،تاہم میری نظر میں گندھارا صرف فن کاہی نام نہیں بلکہ ہماری پاک دھرتی کے تحمل، برداشت اور رواداری پر مبنی ہزاروں سال قدیم تابناک ماضی کا آئینہ دار ہے،میں ماضی میں بھی مذہبی سیاحت کی اہمیت کو ہائی لائٹ کرتا آیا ہوں اور آج پھر بطور محب وطن پاکستانی یہ استدعا کرتا ہوں کہ حکومتِ پاکستان پاک دھرتی پر واقع قدیم مقدس مقامات کی اہمیت کو سمجھے اورگندھارا کے مقدس قدیم ورثے کا تحفظ کرکے پاکستان کو دوست ممالک میں بسنے والے عالمی سیاحوں کیلئے ایک پرکشش ملک کے طور پر پیش کرے،اگر حکومت صرف گندھارا سیاحت کے فروغ پر ہی اپنی توجہ مرکوز کرلے تو مجھے یقین ہے کہ ہم مختصر عرصے میں نہ صرف اپناعالمی امیج بہتر کرکے کثیر مقدار میں زرمبادلہ کما سکتے ہیں بلکہ بیرونی قرضوں سے بھی چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں، گندھارا آرٹ کی باقاعدہ ایکسپورٹ بھی ملکی معیشت کے استحکام میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین