سندھ میں ڈاکو راج کی سرکوبی، آئی جی سندھ صوبائی حکومت سنجیدہ، اسلحے اور جدید ٹیکنالوجی کی خریداری کے لیے خطیر رقم کی منظوری، پولیس کی نفری میں اضافہ، پنجاب ، بلوچستان پولیس کے ساتھ مشترکہ آپریشن ، خطرے کی علامت سمجھے جانے والے کچے کے علاقوں دریائی جزیروں جنگلات پر مشتمل علاقوں میں پلوں اسکولوں پختہ سڑکوں اور بنیادی ضروریات کی فراہمی سمیت کئی اعلانات جن پر تاحال عمل درآمد نہ کیا جاسکا ، کب پولیس کی آپریشنل ضروریات کو پورا کیا جائے گا۔ پولیس نامساعد حالات اور مشکلات کے باوجود جدید اور خطرناک اسلحے سے لیس مسلح ڈاکوؤں کا مقابلہ اور گھیراو کرنے میں مصروف عمل دکھائی دیتی ہے۔
آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی سربراہی میں پہلی مرتبہ گھوٹکی سے کشمور تک چار اضلاع کے کچے کے علاقوں میں 250 سے زائد پختہ اور مستقل پولیس چوکیاں قائم کی جارہی ہیں۔ گھوٹکی اور کشمور میں آپریشنل کمانڈر ایس ایس پی تنویر حسین تنیو اور ایس ایس پی کشمور عرفان علی سموں کی سربراہی میں جو حکمت عملی مرتب کی گئی ہے، اس کے بعد اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں نمایاں کمی دکھائی دے رہی ہے ، خاص طور پر گھوٹکی ضلع میں اغوا کی وارداتیں مکمل طور پر دم توڑ چکی ہیں۔
کچے کے علاقوں میں پولیس چوکیوں کی بڑی تعداد میں قائم کئے جانے کے عمل کے بعد ڈاکوؤں کی جانب سے اپنا گھیراؤ تنگ محسوس کرتے ہوئے ان پولیس چوکیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ جدید ہتھیاروں سے لیس ڈاکو بڑی تعداد میں جمع ہوکر کسی پولیس اور پولیس چوکیوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ گزشتہ دِنوں کشمور کے علاقے غوثپور میں ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ایک پولیس اہل کار شہید ہوگیا، ڈاکو سرکاری اسلحہ لوٹ کر فرار ہوگئے، پولیس کے مطابق پولیس اہل کار غوثپور شہر میں ڈیوٹی پر تھا کہ ڈاکوؤں نے ٹارگیٹ کرکے شہید کیا، ڈاکوؤں کی فائرنگ سے اہل کار غلام نبی سومرو شہید ہوگیا، جب کہ اگلے ہی روز مسلح ڈاکوؤں نے کشمور میں تنگوانی پولیس چیک پوسٹ پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہل کار شہید ایک زخمی ہوگیا، ڈاکو سرکاری اسلحہ بھی لے گئے۔
پولیس کے مطابق ڈاکوؤں نے اکبر باجکانی پولیس چیک پوسٹ پر حملہ کرکے فائرنگ کردی، جس سےایک اہلکار علی محمد ملک شہید اور عبداللہ ملک زخمی ہوگیا،ڈاکو پولیس کا سرکاری اسلحہ اٹھا کر فرار ہوگئے، جب کہ اسی روز ڈاکوؤں نے گھوٹکی کچے کے علاقے تھانہ آندل سندرانی کی پولیس چوکی پر جدید ہتھیاروں سے حملہ کیا حملے میں ایک پولیس اہل کار شہید دو زخمی ہوگئے، پولیس کے مطابق ڈاکوؤں نے جدید ہتھیاروں سے تھانہ آندل سندرانی کی صادق لکھن چیک پوسٹ پر حملہ کیا، حملے میں پولیس کانسٹیبل خالد حسین میمن شھید ہوگئے، جب کہ ہیڈ کانسٹیبل قیصر علی کلھوڑو اور پولیس کانسٹیبل سکندرعلی لبانو زخمی ہوئے ہیں، جنہیں اسپتال منتقل کیا گیا۔
ایس ایس پی گھوٹکی تنویر حسین تنیو اور ایس ایس پی کشمور عرفان علی سموں کا کہنا تھا کہ کشمور اور گھوٹکی میں قیام امن کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے پولیس افسران اور جوان محکمے کا فخر ہیں، ضلع گھوٹکی میں اغواء برائے تاوان کی وارداتوں پر پولیس کی جانب سے مکمل کنٹرول کرنے پر ڈاکو جرائم پیشہ عناصر اور اغوا کار یہ بزدلانہ کاروائیاں کر رہے ہیں، جنہیں بھرپور طریقے سے جواب دیا جائے گا، شہداء کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی۔ شہید ہمیشہ عوام کے دِلوں میں زندہ رہیں گے اوران کا نام سنہری الفاظ میں لکھا اور یاد کیا جائے گا، پولیس کے حوصلے بلند ہیں۔
ڈاکوؤں کی مکمل سرکوبی تک ان کے خلاف آپریشن جاری رہے گا، چند ماہ قبل سندھ اور پنجاب پولیس کے ساتھ دونوں صوبوں کے سرحدی علاقے میں مشترکہ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا اور بلوچستان پولیس کو شامل کرنے کی بات بھی ہوئی۔ آئی جی سندھ کی کاوشوں سے سندھ حکومت نے پولیس کو جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کی خریداری کے لیے ڈھائی ارب سے زائد رقم کی منظوری دی، لیکن تاحال جدید گاڑیاں خاص طور پر جدید ہتھیار اور ٹیکنالوجی پولیس کو فراہم نہیں کی جاسکی۔
ان مشکل ترین حالات میں جہاں ایک جانب سندھ سے ملحقہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خان اور راجن پور میں پولیس بھرپور آپریشن میں مصروف دکھائی دیتی ہے، ایسے میں گھوٹکی اور کشمور کے سرحدی علاقوں کی کڑی نگرانی اور ڈاکوؤں کے سندھ میں داخلے کو روکنے کے لیے پولیس نے محدود وسائل کے باوجود غیر معمولی اقدامات کئے ہیں اور جس طرح ان چار اضلاع خاص طور پر گھوٹکی اور کشمور میں پولیس کے جوان بہادری کے ساتھ ڈٹ کر ڈاکوؤں کا گھیرا تنگ اور پولیس چوکیوں کی تیاری اور تیار ہونے والی چوکیوں میں پولیس کی 24 گھنٹے موجودگی کو یقینی بنائے ہوئے ہیں۔ اس سے ہماری پولیس کی بہترین پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح وہ جدید ہتھیاروں سے لیس ڈاکوؤں کے سامنے دیوار بنے ہوئے ہیں ۔ اور بلند حوصلے کے ساتھ ڈاکوؤں سے مقابلے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔
اگر بات کی جائے اسلحے کے حوالے سے تو صورت حال یہ ہے کہ ڈاکوؤں کے پاس اینٹی ائیر کرافٹ گنز راکٹ لانچر سمیت جدید ہتھیار موجود ہیں، پولیس افسران کے مطابق ڈاکوؤں کے پاس ہتھیاروں کی جدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو ہتھیار ڈاکوؤں کے پاس ہیں، ان کی رينج 3 کلوميٹر اور پوليس کے ہتھياروں کی رينج 500ميٹر ہے ، ڈرون سميت جديد ہتھيار چند ماہ قبل ملنے کی بات کی گئی، تاکہ ان ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی آنے کے بعد ڈاکوؤں کے خلاف بھر پور کارروائی کی جاسکے، لیکن تاحال پولیس کی آپریشنل ضروریات کو پورا نہیں کیا جاسکا، جب کہ خطیر رقم کی منظوری بھی ہوگئی، تو ترجیحی بنیادوں پر یہ مرحلہ مکمل کیا جانا چاہیے تھا، لیکن تاحال صورت حال جوں کی توں دکھائی دیتی ہے ۔
پولیس ذرائع کے مطابق چند بکتر بند گاڑیاں گھوٹکی کشمور کو دی گئی ہیں، لیکن جدید ہتھیار اس وقت تک پولیس کو فراہم نہیں کئے گئے، کہاں رکاوٹ یا معاملات ہیں یہ تو صوبائی حکومت اور پولیس چیف ہی بہتر جانتے ہوں گے۔ دوسری جو اہم ترین بات ہے وہ ضلع کشمور جو پنجاب اور بلوچستان کے سرحدی علاقے سے ملا ہوا اور انتہائی اہم ضلع ہے، لیکن ایک ماہ گزر جانے کے باوجود ایس ایس پی کشمور تعینات نہ کیا جاسکا اور آپریشن کمانڈر عرفان علی سموں کشمور گھوٹکی دونوں اضلاع میں بیک وقت بہتر حکمت عملی سے ڈاکووں کا گھیرا تنگ اور ٹارگیٹڈ آپریشن میں مصروف عمل دکھائی دے رہے ہیں۔
کشمور میں چند روز کے دوران 10 سے زائد مغویوں کو بازیاب کرایا گیا ہے، اگر دیکھا جائے تو آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی سربراہی اور مشاورت کے بعد جس طرح ان چار اضلاع کے کچے کے علاقوں سکھر گھوٹکی شکارپور کشمور خاص طور گھوٹکی میں 90 پولیس چوکیاں اور مجموعی طور پر 250 پولیس چوکیاں قائم کی گئی ہیں یا کی جارہی ہیں، یہ ایس ایس پی گھوٹکی تنویر حسین تنیو اور دیگر افسران کا قابل تحسین اقدام ہے کہ کچے کے جن علاقوں میں دن کے وقت پولیس نہیں جاسکتی تھی، آج وہاں پولیس چوکیوں میں رات کے وقت بھی پولیس اہل کار موجود ہوتے ہیں اور کشمور سے گھوٹکی تک ان چار اضلاع کے کچے میں چاروں طرف اونچی اور مستقل پولیس چوکیاں موجود ہیں، لیکن ان میں موجود پولیس اہل کار روایتی اسلحے ہونے کے باوجود ہمت بہادری اور عزم کے ساتھ جدید اسلحے سے لیس ڈاکوؤں کا مقابلہ کررہے ہیں۔
آئی جی سندھ پولیس کی آپریشنل ضروریات کو پورا کرنے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اور اس بات کا اظہار نے اپنے دورہ سکھر کے موقع پر کیا ہے اور اس وقت ان کے پاس لاڑکانہ ڈی آئی جی مظہر نواز شیخ اور سکھر ڈی آئی جی جاوید سونھارو جسکانی اور ان کی اینٹی ڈکیٹ آپریشن کی ماہر ٹیم موجود ہے، لیکن ضروری لازمی چیز جو آپریشنل ضروریات ہیں، انہیں پورا کرنا ہے، بلاشبہ جب سے چوکیاں قائم کرنے اور ڈاکوؤں کا گھیراؤ کیا جانے لگا ہے اس کے بعد گزشتہ ایک دو ماہ میں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں نمایاں کمی آئی ہے اور اب ہنی ٹریپ کے واقعات تو راستوں میں چوکیوں کے قیام سے ویسے ہی بند ہوگئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب ڈاکو باہر نکل کر کبھی کبھار اغوا کی فزیکل واردات انجام دیتے ہیں یا پھر پولیس چوکیوں پر حملے کئے جاتے ہیں۔