اسلام آباد (فاروق اقدس/ تجزیاتی رپورٹ) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے موجودہ حکومت کے خلاف الزامات اور بالخصوص معاشی صورتحال کے حوالے سے گمراہ کن پروپیگنڈے کا سلسلہ ایک سال سے جاری ہےکور کمانڈر کے گھر پر حملہ اور توڑ پھوڑ سے تحریک انصاف پر پابندی کے امکان اور سوچ کو زبان مل گئی، مجموعی طور پر اس طرزعمل کے منفی اثرات سے جہاں غیریقینی صورتحال پیدا ہونے کے باعث ترقی یافتہ ممالک نے رابطوں میں قدرے کھنچاؤ اور امداد دینے والے اداروں نے بھی پاکستان کی معیشت میں کردار ادا کرنے کے حوالے سے تذبذب کے رویئے اختیار کر لئے جس سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوئی۔
اس سمیت پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بعض اقدامات کے تناظر میں حکومتی زعما تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے امکانات پر مشاورت کرتے رہے اور فارن فنڈنگ کیس سمیت متعدد مقدمات جن میں تحریک انصاف کے چیئرمین کی گرفتاری یقینی تھی پر غورو خوض بھی، جبکہ عمران خان کی جانب سے گرفتار کئے جانے پر ملک جام، جلاؤ گھیراؤ اور نظام زندگی معطل کرنے کی دھمکیاں دی گئیں، جن میں بعض ممالک سے مداخلت کی درخواستیں بھی شامل ہیں لیکن سانحہ 9مئی کے بعد جب عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کے راہنماؤں اور کارکنوں نے ان کی اعلانیہ دھمکیوں اور غیر اعلانیہ حکمت عملی کے تحت جناح ہاؤس سمیت مختلف مقامات پر فوجی تنصیبات اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا جس کی انتہا کورکمانڈر کے گھر پر حملہ اور توڑ پھوڑ تھی تو پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کے امکان اور سوچ کو زبان مل گئی اور رانا ثناء اللہ نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران حالات و واقعات کے پیش نظر تحریک انصاف پر پابندی کو ’’واحد حل‘‘ قرار دیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اطلاعات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی اس اقدام کی حمایت نہیں کرتی کہ کسی سیاسی پارٹی پر پابندی عائد کی جائے لیکن اسی پریس کانفرنس میں رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو نے اس مجوزہ اقدام کی مخالفت نہیں کی تھی بلکہ ان کا یہ کہنا تھا کہ ’’ اگر عمران خان نے اپنے منفی رویئے نہ بدلے تو پھر ہم اس اقدام کی حمایت کریں گے‘‘۔ جبکہ 10 مئی کو ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی اس حوالے سے غوروخوض کیا گیا تھا۔