• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

3 ڈاکٹرز نے عبدالقادر پٹیل کے الزامات کو مضحکہ خیز قرار دیا، تجزیہ کار

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں میزبان شاہزیب خانزادہ نے اپنے تجزیئے میں کہا کہ تین ڈاکٹرز نے وزیر صحت عبدالقادر پٹیل کے الزامات کو مضحکہ خیز قرار دیا، جو دعوے وزیرصحت کررہے ہیں وہ اس رپورٹ میں کہیں نظر نہیں آرہے ہیں، رپورٹ بتارہی ہے عمران خان کی ذہنی حالت مستحکم ہے،وزیراعظم کے معاون خصوصی عطاء تارڑ نے کہا کہ چیف جسٹس اگر ججوں اور ان کی فیملی سے متعلق معاملات کی تحقیقات پر اسٹے آرڈر دیدیں گے تو ہم انصاف کیلئے کس فورم پر جائیں۔سینئر صحافی و تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی نے کہا کہ عمران خان سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے، مقبول قیادتیں ہمیشہ اپنے زعم میں گرتی ہیں انہیں کوئی دوسرا دھکا نہیں دے سکتا۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی گرفتاری کے سترہ دنوں بعد وزیرصحت عبدالقادر پٹیل نے عمران خان کی میڈیکل رپورٹ میڈیا سے شیئر کی، میڈیکل رپورٹ میں عمران خان کی طبی حالت کو مستحکم او ر نارمل کہا گیا ہے، رپورٹ کے آخر میں لکھا گیا ہے کہ عمران خان اسٹریس میں ہیں اینگزائٹی کی علامات بھی ہیں جبکہ گزشتہ ہفتے کے واقعات کی وجہ سے غصے کا بھی شکار ہیں، ان کی ذہنی حالت مستحکم ہونے پر بھی سوالات ہیں وہ کچھ نامناسب اشارے بھی کررہے ہیں، مگر رپورٹ میں اوپر لکھا ہے کہ عمران خان کی ذہنی حالت مستحکم ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ ہم نے یہ رپورٹ اور وزیرصحت کی پریس کانفرنس تین ڈاکٹرز کے ساتھ شیئر کی تو انہوں نے وزیر صحت عبدالقادر پٹیل کے الزامات کو مضحکہ خیز قرار دیا، ڈاکٹرز کے مطابق اگر عمران خان کے ٹیسٹ 17 دن پہلے کیے گئے تھے تو یورین ٹیسٹ کی رپورٹ تو چند دنوں میں آجاتی ہے، یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ وزیر صحت سترہ دن بعد بھی یہ دعویٰ کیسے کررہے ہیں کہ ابھی ابتدائی نتائج آئے ہیں اور حتمی رائے کیلئے مزید رپورٹ کا انتظار ہے، ڈاکٹرز نے یہ بھی کہا کہ جو دعوے وزیرصحت کررہے ہیں وہ اس رپورٹ میں کہیں نظر نہیں آرہے ہیں، رپورٹ بتارہی ہے عمران خان کی ذہنی حالت مستحکم ہے ، آخر میں ڈاکٹرز کی جو رائے بتائی گئی ہے کہ گرفتاری کے بعد غصہ او ر اینگزائٹی ان کی ذہنی حالت پر کوئی سوا ل نہیں اٹھاتا یہ نارمل بات ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی عطاء تارڑ نے کہا کہ چیف جسٹس کی ساس نے کمیشن کے سامنے پیش ہونا ہے، ایسے میں چیف جسٹس خود کیسے اس کیس کو سن سکتے اور فیصلہ کرسکتے ہیں، ماضی میں جج صاحبان کے فیملی ممبرز، دوستوں یا سوشل سرکل کی بات آتی تو وہ خود کو بنچ سے علیحدہ کرلیتے تھے، عجیب بات ہے کہ انکوائر ی کمیشن ایکٹ کے تحت سینئر ترین جج کی سربراہی میں کمیشن بنایا جاتا ہے لیکن حقائق دیکھے بغیر اسے معطل کردیا جاتا ہے، یہا ں چیف جسٹس کی ساس کا معاملہ ہے اس لیے عمر عطا بندیال صاحب کو یہ کیس نہیں سننا چاہئے تھا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آڈیو ریکارڈنگز کی بات کی تھی تو یہی چیف جسٹس تھے جنہوں نے جسٹس فائز عیسیٰ سے کہا تھا کہ آگے چلیں۔ عطاء تارڑ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس عدلیہ میں بیٹھ کر حکومت ، کابینہ اور پارلیمنٹ کا کردار ادا کررہے ہیں، تب انہیں خیال نہیں آتا کہ ان کا کردار عدلیہ او ر فیصلے دینے کا ہے، چیف جسٹس کی ساس نے آڈیو میں ذکر کیا کہ ان کا جسٹس منیب اختر سے رابطہ ہے، یہاں چونکہ عدالتی فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی بات کی گئی تو جسٹس منیب اختر کو بھی اس بنچ میں نہیں بیٹھنا چاہئے تھا، جسٹس مظاہر علی نقوی کیخلاف ریفرنس آئے مدت ہوگئی مگر ابھی تک سماعت کیلئے مقرر نہیں کیا گیا۔
اہم خبریں سے مزید