جب پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں کامیابی کے ساتھ ایٹمی دھماکے کرکے نہ صرف ہر قسم کی بیرونی جارحیت کیخلاف مضبوط دفاعی حصار قائم کیا بلکہ عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ آج اسی شاندار کامیابی کی سلور جوبلی منائی جا رہی ہے۔ قومی قوم اِک نئے عزم کے ساتھ اس عہد کی تجدید کر رہی ہے کہ نہ تو دفاعِ پاکستان پر کوئی آنچ آنے دی جائے گی اور نہ ہی مادر ِوطن کی حفاظت کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کی تکریم پہ کوئی حرف آنے دیا جائیگا۔
بھارت نے 18مئی 1974ء کو اپنے ریگستانی علاقے میں پوکھران کے مقام پر اپنا ابتدائی ایٹمی تجربہ کیا جسے بھارتی حکومت نے سمائلنگ بدھا یا مسکراتا ہوا گوتم بدھ کا کوڈ نام دیا تھا۔ بھارت کے اس ایٹمی تجربے کے ساتھ ہی اُس کے خطرناک جارحانہ عزائم بھی بے نقاب ہونا شروع ہو گئے کیونکہ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کی حکومت نے پورے خطے میں بھارت کی بالادستی کے خواب دیکھنا شروع کر دیئے تھے۔ اُس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی دُور اندیشی اور بصیرت سے بھارت کے مکروہ جارحانہ عزائم کو بھانپ لیا اور ممکنہ خطرے کا ادراک ہوتے ہی کسی بھی قسم کی بیرونی جارحیت سے نمٹنے کیلئے تیاری شروع کر دی۔
وزیراعظم بھٹو نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہمیں چاہے گھاس کھانا پڑے، ہم اپنے دفاع کیلئے ایٹمی قوت حاصل کرینگے۔ پوری قوم نے وزیراعظم کے اس اعلان پر لبیک کہی۔ پاکستانی سائنس دانوں کیلئے ایٹمی قوت کا حصول ایک چیلنج تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے جہاں ایٹمی توانائی کمیشن کے دیگر پاکستانی سائنسدان اپنی بساط کے مطابق کوششیں کر رہے تھے، قادرِ مطلق نے بھی پاکستان کی دستگیری کی اور ہالینڈ میں مُقیم پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے دِل میں یہ خیال ڈالا کہ اس وقت مادرِ وطن کو اُن کی صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان غیر منقسم ہندوستان کی مسلم ریاست بھوپال میں اپریل 1936ء میں پیدا ہوئے۔ اُنہوں نے ابتدائی تعلیم بھوپال میں حاصل کی اور قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے کراچی آ گئے جہاں کالج کی تعلیم سے فراغت اور کچھ عرصہ ملازمت کرنے کے بعد وہ سائنس کی اعلیٰ تعلیم کیلئے یورپ گئے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پوکھران کے ایٹمی تجربے سے بھارت کے جارحانہ عزائم آشکار ہوئے تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے وزیر اعظم بھٹو کو خط لکھ کر اپنی خدمات پیش کر دیں اور یقین دلایا کہ وہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کیلئے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی یہ پیشکش قبول کر لی اور اُنہیں پاکستان آنے کی دعوت دی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مادرِ وطن کی خاطر یورپ کی پرآسائش زندگی، بھاری تنخواہ اور مراعات کو خیرباد کہہ کے پاکستان کی خدمت کا بیڑا اُٹھایا اور اپنی زندگی اور اپنی صلاحیتیں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کیلئے وقف کر دیں۔
شروع میں اُنہیں پاکستان کے ایٹمی توانائی کمیشن کے ساتھ مُنسلک کیا گیا لیکن جب اس مایہ ناز سائنسدان نے دیکھا کہ نظام کے باقی کل پرزے اُنکی کام کرنے کی رفتار کا ساتھ نہیں دے سکتے تو اُنہوں نے وزیراعظم کو صورتحال سے آگاہ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے فیصلہ کیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان آزادانہ طور پہ ایک خصوصی پراجیکٹ پہ کام کریں گے جس کیلئے راولپنڈی کے قریب کہوٹہ کے مقام پر لیبارٹری قائم کی گئی جو بعد میں اُنہی کے نام سے موسوم ہوئی۔
سہ رکنی کمیٹی
کہوٹہ پراجیکٹ کو کامیاب بنانے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو تمام سہولتیں فراہم کرنے کیلئے وزیراعظم بھٹو نے حکومت پاکستان کے تین نہایت سینئر افسروں پر مشتمل کمیٹی قائم کی۔ اس کمیٹی میں غلام اسحاق خان‘ اے جی این قاضی اور آغا شاہی شامل تھے۔ اس کمیٹی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ پراجیکٹ کے کام میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ آنے پائے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر نہایت تندہی اور جانفشانی سے کام کرتے ہوئے سائنس دانوں، انجینئرز اور تکنیکی ماہرین کی زبردست ٹیم تیار کی اور ایٹمی صلاحیت کے حصول کیلئے یورینیم کی افزودگی پر دن رات کام شروع کر دیا گیا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم نے ہر مرحلے پر ہمارے سائنس دانوں کی رہنمائی اور اعانت کی اور بعض بڑی طاقتوں کی مخالفت اور دھمکیوں کے باوجود یورینیم کی افزودگی کا کام آگے بڑھتا رہا۔ کاوشوں کا تسلسل‘ ملک میں ہونے والی سیاسی اور انتظامی تبدیلیوں کا بھی ہمارے پرامن ایٹمی پروگرام پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جنرل محمد ضیاء الحق کی حکومت بھی اس پروگرام کیلئے تمام ممکن وسائل فراہم کرتی رہی۔ جنرل ضیاء الحق نے بڑی استقامت سے مغربی ملکوں کا دبائو برداشت کرتے ہوئے نہ صرف یہ پروگرام جاری رکھا بلکہ اسکی رفتار تیزتر کر دی۔
سیاسی قیادت کے عزم اور سائنس دانوں کی انتھک محنت کی بدولت اکتوبر 1984ء میں پاکستان نے کامیابی کے ساتھ اپنی ایٹمی صلاحیت کا کولڈ ٹیسٹ کیا۔ جنرل ضیاءُالحق کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو اور محمد نواز شریف کے دور حکومت میں کہوٹہ پراجیکٹ اور ایٹمی توانائی کمیشن کے سائنس دانوں نے ایٹمی صلاحیت پر کام مسلسل جاری رکھا۔
سیاسی اور عسکری قیادت نے ہر دبائو کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے پاکستان کے اس اہم دفاعی پروگرام کا تحفظ کیا۔ دباؤ اس حوالے سے بھی تھا کہ پاکستان ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کرے۔ پاکستان نے ہر مرحلے پر واضح کیا کہ اس کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کیلئے ہے اور وہ کسی کیخلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا لیکن وہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے سمجھوتے پر اُس وقت تک دستخط نہیں کر سکتا جب تک بھارت اور خطے کے دوسرے ممالک اس پر دستخط نہیں کرتے۔
طاقت کا توازن
بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے دور حکومت میں عسکری مشقوں کے بہانے پاکستان کی سرحدوں پر بھارتی فوج اکٹھی کر دی گئی تو صدر جنرل محمد ضیاء الحق اپنی کرکٹ ڈپلومیسی کے تحت فروری 1987ء میں بھارتی شہر جے پور میں کرکٹ میچ دیکھنے گئے اور واپسی سے پہلے راجیو گاندھی کو خبردار کر آئے کہ اگر بھارت نے کوئی مہم جوئی کی تو اُسے انتہائی تباہ کن نتائج بھگتنا پڑینگے۔ اخبارات نے اسے جنرل ضیاء کے چھکے کا نام دیا۔ یہ چھکا اُسی ایٹمی صلاحیت کی بدولت لگا جو پاکستان حاصل کر چکا تھا اور جس کے نتیجے میں خطے میں طاقت کا توازن بحال ہو گیا تھا۔
فیصلہ کُن گھڑی
بھارت کے جارحانہ عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ایسے ہی عزائم کے تحت بھارتی حکومت نے گیارہ اور تیرہ مئی 1998ء کو پانچ ایٹمی دھماکے کئے۔ یہ پاکستان کیلئے ایک نئے خطرے کی نشان دہی تھی۔ ان دھماکوں کے ساتھ ہی بھارتی لیڈروں کا لب و لہجہ بدل گیا اور وہ پاکستان کو دھمکیاں دینے پر اُتر آئے۔ پاکستان کو اپنی ایٹمی صلاحیت پر اعتماد تھا لیکن قوم چاہتی تھی کہ بھارت کو اُسی کے لہجے میں جواب دیا جائے۔
امریکہ اور کئی مغربی ملکوں نے پاکستان پر دباؤ بھی ڈالا اور اُسے لالچ بھی دیا گیا کہ وہ بھارت کے ان جارحانہ عزائم کے جواب میں ایٹمی دھماکے نہ کرے۔ لیکن اُس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بڑی جرآت اور ہمت کے ساتھ ہر قسم کے دباؤ اور اربوں ڈالر امداد کی ہر پیشکش کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ بھارت کے پانچ دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے 28مئی 1998ء کو چاغی کے پہاڑوں میں پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کئے، اور دو دن بعد چھٹا دھماکہ خاران کے علاقے میں زیر زمین کیا گیا۔
یہ عظیم کامیابی وزیراعظم محمد نواز شریف کے جرآت مندانہ فیصلے اور عزم صمیم کی بدولت پاکستانی سائنس دانوں کی تکنیکی مہارت کے ذریعے ممکن ہوئی، جن میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور سینکڑوں دوسرے سائنسدان شامل تھے۔ کامیاب دھماکوں کی خوشخبری ملتے ہی پاکستانی قوم اللہ رب العزت کے حضور سجدہ شکر بجا لائی اور فضا نعرہ تکبیر اللہ اکبر سے گونج اٹھی۔ یہ بجا طور پہ یومِ تکبیر تھا، اور اُسی کی آج سلور جوبلی ہے۔
سیاسی اور عسکری قیادت کا عزم
ہمارا ایٹمی پروگرام قوم کی امانت ہے اور پاکستان کی اس ایٹمی صلاحیت پہ عالم اسلام کو بھی بجا طور پہ فخر ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اپنی اس پالیسی کا اعادہ کیا ہے کہ وہ کسی کے خلاف کوئی جارحانہ عزائم نہیں رکھتا، یہ ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کیلئے ہے اور اپنے دفاع کو یقینی بنانے کے سلسلے میں ایک ڈیٹرینس کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اور مسلح افواج ایٹمی صلاحیت کے محافظ ہیں اور وہ اس صلاحیت کا ہر قیمت پر تحفظ کریں گے۔
پاکستان نے اپنے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت، حفاظت اور تاثیر کو یقینی بنانے کے لئے ایک مضبوط نیوکلیئر کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تیار کیا ہے۔ ملک نے اپنے جوہری ہتھیاروں اور متعلقہ سرگرمیوں پر سخت کنٹرول برقرار رکھنے کے لئے مختلف میکانزم اور پروٹوکول قائم کیے ہیں۔ پاکستان کا نیوکلیئر کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کئی پرتوں اور اجزاء پر مشتمل ہے۔ اس میں ایک نیشنل کمانڈ اتھارٹی (این سی اے) بھی شامل ہے، جو جوہری معاملات سے متعلق پالیسی سازی، اسٹریٹجک رہنمائی اور فیصلہ سازی کے لیے ذمہ دار سویلین قیادت والا اعلیٰ ترین ادارہ ہے۔
این سی اے پاکستان کے جوہری پروگرام کی سیاسی نگرانی اور کنٹرول کو یقینی بناتا ہے۔ مزید برآں، پاکستان نے اسٹریٹجک پلانز ڈویژن (ایس پی ڈی) قائم کیا ہے جو جوہری ہتھیاروں کے روزمرہ کے انتظام اور آپریشنل کنٹرول کے لئے ذمہ دار ایک وقف فوجی تنظیم کے طور پر کام کرتا ہے. ایس پی ڈی کو این سی اے کی پالیسیوں اور ہدایات پر عمل درآمد اور پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی سلامتی اور حفاظت کو یقینی بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
اپنے جوہری اثاثوں کی جسمانی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان نے سخت اقدامات کیے ہیں جن میں اہلکاروں کی قابل اعتمادیت کے جامع پروگرام، سخت رسائی کنٹرول، جدید نگرانی کے نظام اور اسٹوریج اور آپریشنل تنصیبات کا جسمانی تحفظ شامل ہے۔ ان اقدامات کا مقصد جوہری ہتھیاروں یا متعلقہ مواد کی غیر مجاز رسائی، تخریب کاری یا چوری کو روکنا ہے۔ پاکستان نے جوہری پروگرام میں شامل اپنے اہلکاروں میں تربیت، تعلیم اور آگاہی کا ایک مضبوط نظام بھی تیار کیا ہے۔
اس میں سخت تربیتی پروگرام ، آپریشنل طریقہ کار کی سختی سے تعمیل، اور پیشہ ورانہ مہارت اور اہلیت کو یقینی بنانے کے لئے مسلسل تشخیص شامل ہے۔ مجموعی طور پر پاکستان نے ایک مضبوط اور قابل اعتماد نیوکلیئر کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے قیام کے لیے نمایاں کوششیں کی ہیں۔ اس کا مقصد اپنے جوہری اثاثوں کی حفاظت، سلامتی اور ذمہ دارانہ انتظام کو یقینی بناتے ہوئے ایک قابل اعتماد ڈیٹرنس پوزیشن کو برقرار رکھنا ہے۔
28 مئی کے ہیروز
پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے اُس وقت کے ممبر ٹیکنیکل ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو ٹیم کا کپتان مقرر کر کے 18مئی 1998ء کو دو جہازوں میں ایٹمی دھماکوں کے سامان سمیت اُس وقت کے چکلالہ ائربیس موجودہ نور خان ائربیس سے براستہ کوئٹہ دالبندین بھجوایا گیا۔ اُن کی ٹیم میں درج ذیل عظیم ایٹمی سائنسدان‘ انجینئرز اور سٹاف موجود تھے۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند (ممبر ٹیکنیکل) ٹیم لیڈر‘ ڈاکٹر خلیل قریشی (ممبر فیول سائیکل)‘ انور علی (ڈی جی) کمپیوٹر کنٹرول‘ غلام نبی (ٹیکنیکل منیجر ون)‘ عرفان برنی (ٹیکنیکل منیجر ٹو)‘ ڈاکٹر طارق جمال سولیجہ (ڈائریکٹر آر بلاک)‘ ڈاکٹر وحید قریشی‘ محمد ارشد (چیف سائنٹفک آفیسر)‘ سعید چوہدری‘ طارق محمود اور محمد اصغر۔