میں نے پرائم منسٹر کی تشکیل کردہ ٹاسک فورس برائے گندھارا سیاحت کے چیئرمین کے طور پرگندھارا زمانے کے مقدس مقامات کے ہفتہ وار دورے کیلئے اسلام آباد کے علاقے شاہ اللہ دِتہ میں واقع بُدھا کے غاروں کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھا، میں شکرگزار ہوں تھائی لینڈاور انڈونیشیا کے سفراء کرام ، ڈپلومیٹس ، سول سوسائٹی اور میڈیا کے نمائندگان کا جو اس یادگاری موقع پر ٹاسک فورس کے ہمراہ تھے۔
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو ایک جدید اورنسبتاََ نیا شہر سمجھا جاتا ہے ،تاہم قدیم زمانے میں راج شاہی کے نام سے جانے جانا والا یہ علاقہ تاریخی اعتبار سے اتنا ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ،آج بھی یہاں دنیا کے قدیم ترین مذاہب ہندو دھرم اور بدھ مت کی موجودگی کے شواہد پائے جاتے ہیں،سیکٹر ڈی بارہ کے نزدشاہ اللہ دِتہ کے قدیمی قصبے میں تقسیم ِبرصغیر سے قبل ایک ہندو سادھو کا بسایا باغ عہد رفتہ کی بھولی بسری داستان بیان کرتا ہے۔ مارگلہ ہلز سے ملحقہ شاہ اللہ دِتہ قصبے میں موجود ہزاروں سال قدیم گھنے درٖختوں میں گھِرے بُدھا کے غاروں کے دوسری پار ٹیکسلا کا تاریخی قدیمی علاقہ ہے جوایک زمانے میں گندھارا تہذیب کا مرکز ہوا کرتا تھا، اِن غاروں سے اوپر بن فقیراں میں اسلام آباد کی حدود میں گوتم بدھا سے منسوب ایک اسٹوپا بھی دریافت ہوا ہے۔ہم جب بدھ کی صبح اسلام آبادمیوزیم سے روانہ ہوئے توموسم خوشگوارتھا،ہم شاہ اللہ دِتہ کے قدیم قصبے کی حدود میں داخل ہوئے، یہ علاقہ کہنے کو تو اسلام آباد میں شامل ہے لیکن یہاں کے باسی اکیسویں صدی میں بھی بیشتر بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ میں جب بدھا کے پُراسرار غاروں میں داخل ہوا تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں ہزاروں سال پرانے زمانے میں پہنچ گیا ہوں،ان غاروں میں ہزاروں سال میں بے شمار سادھوؤں ، بکھشؤں ، پنڈتوںاور صوفیا ء کرام نے نفس کشی کیلئے چِلے کاٹے اور مراقبے کی مشکل ترین مشقیں کی ہیں،یہ غار قدیم ٹیکسلا کے عظیم فلسفی کوٹلیہ چانکیہ کا مسکن بھی رہی ہیں، آج اگر غاروں کی اندھیری دیواروں کو غورسے دیکھا جائے توجیسے گندھارا تہذیب کے قدیم تصاویری نقش کنندہ نظر آتے ہیں۔ تھوڑا عرصہ قبل شِو جی کی قدیمی تصویر غارکے مشرقی حصے کی دیوار میں نقش تھی لیکن اب اس کے آثار بھی مٹا دیے گئے ہیں۔ ان غاروں میںآج بھی برگد کا ایک ہزاروں سال قدیم درخت موجودہے جہاں سے ایک چشمہ نکلتا ہے ، اس چشمے کے مقدس پانی سے مخلوقِ خدا اپنی پیاس بجھاتی رہی ہے ۔اشوک اعظم کے دورِحکومت میںجب ٹیکسلا اپنے زمانے کا جدید اور علم پرور شہر تھاتوٹیکسلا جانے والا ہر قافلہ بدھا کے ان غاروں میں اپنا پڑاؤ ڈالتا تھا، یہاں کے میٹھے چشموں سے پیاس بجھا تا تھا اور گھنے درختوں میں گھِرے یہ غارانہیں سر چھپانے کیلئے ٹھکانہ فراہم کرتے تھے۔ تاریخی طور پر پتھر کے دور کے یہ غار ہندوستان سے وسط ایشیا، چین ، مشرق وسطیٰ اوردنیا کے دیگر خطوں میں جانے والے تجارتی قافلوں کیلئے ایک عارضی سرائے بھی تھے، تاہم افغان حکمراں شیر شاہ سوری سے منسوب جی ٹی روڈ کی تعمیر کے بعد یہ قدیمی راستہ رفتہ رفتہ متروک ہوتا چلا گیا ۔ مجھے مقامی لوگوں نے بتایا کہ ایک زمانے میں شاہ اللہ دِتہ کاقدیم قصبہ مذہبی ہم آہنگی کا گہوارہ ہوا کرتا تھا، گوتم بدھا سے منسوب ان غاروں کی ہندودھرم ، بدھ مت اور جین مت کے پیروکاروںکی نظر میں اپنی مذہبی حیثیت ہے لیکن مغل دورحکومت میں یہاں شاہ اللہ دتہ نامی مسلمان بزرگ نے اپنی آخری سانسوں تک اس باغ میں قیام کیا جنکا مزار یہاں موجود ہے، آج یہاں کا سارا علاقہ اللہ کے نیک بزرگ کے نام سے منسوب ہے، یہاں کینتھلانامی گاؤں میں شیر شاہ سوری کا تعمیر کردہ قدیم کنواں بھی موجود ہے، قیامِ پاکستان سے قبل شاہ اللہ دتہ قصبے میں ہندو کمیونٹی کے مختلف خاندان آباد تھے جو ان غاروںکی باقاعدگی سے دیکھ بھال کیا کرتے تھے۔جب برصغیر کی تقسیم کے بعد ہندو گھرانے یہاں سے نقل مکانی کرگئے تو سادھو کا با غ ، بدھا کے غاراور لگ بھگ856 کنال زمین وقف متروکہ املاک کی ملکیت میں آگئی، افسوس کا مقام ہے کہ آج صرف آٹھ کنال کا قبضہ ہی محکمے کے پاس رہ گیا ہے،تحفظ آثار قدیمہ کے قانون مجریہ 1975 کے تحت ان غاروں کے دو سو فٹ تک کسی بھی قسم کی تعمیرات ممنوع ہیں اور خلاف ورزی پر تین سال تک سزا ہو سکتی ہے،تاہم یہاں قبضہ گروپ اور لینڈ مافیا تیزی سے تاریخی مقدس ورثے کو ہڑپ کرنے میں مصروف ہے،تاہم آج یہ غاراسلام آباد کے پُراسرار ترین مقام سمجھے جاتے ہیں، جہاں کسی زمانے میں مخلوق خدا فیض پاتی تھی، آج ویرانیوں کا راج ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میںایک دن بُدھ سیاحوں کو پھر سے بدھا کے غار آباد کرتا دیکھوں اور شاہ اللہ دتہ کا قدیم قصبہ ایک مرتبہ پھر مذہبی ہم آہنگی کی علامت بن کر اُبھرے، مجھے یقین ہے کہ عالمی سیاحوں کی آمد علاقے کی پسماندگی دور کرنے کا باعث بھی بنے گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)