• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر صاحبہ میری بہو کو دیکھ لیں۔ چھ دن پہلے اس کی ڈیلیوری ہوئی ہے ماشاء اللہ بیٹا پیدا ہوا ہے، مگر اس ناشکری کو دیکھیں سارا دن کمرے میں بند رہتی ہے۔ بچہ روتا رہتا ہے۔ ناہی اس کو گود میں لیتی ہے اور ناہی خود سے دودھ پلاتی ہے۔ اور میرے سامنے احساس سے عاری چہرہ لئے کچھ لاتعلق سی مریضہ موجود تھی۔ ڈاکٹر باجی ہمارا بہن کو دیکھو۔ پانچ دن ہوئے اس کو بچہ پیدا ہوا ہے۔ اس کو جن نے پکڑا ہے۔ ملّا سے علاج کروایا ہے پر اس کو آرام نہیں ہے ادھر چھوٹا ڈاکٹر نے بولا لیڈی ڈاکٹر کو دکھاؤ۔ مریضہ کے چہرے اور بازوؤں پر نیل کے نشان دیکھ کر جب پوچھا کہ اس کو کسی نے مارا ہے؟ ہمارا سے سوال کے جواب میں بولا مارا کدھر ہے۔ 

ملّا نے جن نکالنے کے واسطے جن کو مارا ہے۔ میرےخدا اس دور میں بھی۔ڈاکٹرنی میری بھاجائی کو دیکھو اس کابچہ ہوئے دس دن ہوئے ہیں ۔ اس کو اوپر کا اثر ہو گیا ہے۔ یہ سارا دن روتی ہے۔ چیختی ہے یا غصہ کرتی ہے۔ کل بچے کو بھی اٹھا کر دور پھینک دیا۔ مولوی صاحب نے بتایا ہے کہ ناپاکی کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ آپ اس کو دوائی دو۔ مریضہ وحشت زدہ چہرے اور خاموش آنکھوں کے ساتھ کچھ غمگین سی ماحول سے بے گانہ۔ یہ ناتو نخرہ ہے ناجن اور ناہی اوپر کا اثر۔ یہ ساری علامات ہیں PPD پوسٹ پارٹم ڈیپریشن کی (Post Partum Depression)یہ ایک ایسی بیماری ہے، جس میں عورت بجائے اس کے کہ وہ پیدا ہونے والے بچے کی خوشی منائے کہ خداوند کریم نے اسے کتنی بڑی نعمت سے نوازا ہے اور اس کا رتبہ کتنا بلند کر دیا ہے۔ 

وہ اُداسی اور دکھ کی کیفیت میں چلی جاتی ہے۔ اسے نومولود سے کوئی محبت، انسیت یا دلچسپی محسوس نہیں ہوتی۔ عموماً بچے کی پیدائش کے پہلے چھ ہفتوں میں اس بیماری کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اگر علاج نہ کروایا جائے تو یہ بیماری مہینوں اور سال تک برقرار رہ سکتی ہے۔ دراصل یہ ڈیپریشن کی ایک ایسی پیچیدہ قسم ہے ،جس میں بچے کی پیدائش کے بعد عورت میں جسمانی، جذباتی اور رویئے یا برتاؤ کی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔ یہ مرض زیادہ تر بچے کی پیدائش کے پہلے 4ہفتوں میں نمودار ہوتا ہے۔ اس کا تعلق سماجی، نفسیاتی اور خون میں کیمیکل تبدیلیوں سے بھی جڑا ہے۔ زیادہ تر کم عمر مائیں اس کا شکار ہوتی ہیں۔ 

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں 13فی صد خواتین بچے کی پیدائش کے بعد اس ڈیپریشن کا شکار ہوتی ہیں۔ جب کہ ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح 20فی صد ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستانی عورتوں میں پوسٹ پارٹم ڈیپریشن کی شرح 28فیصد ہے۔ اگر ہم Post Partum Depressionیا پوسٹ ڈیلیوری ڈیپریشن کی علامات پر نظر ڈالیں تو شدید تکلیف، مایوسی، اُداسی، تھکن ، کمزوری، غصہ چڑچڑاپن ،بے سبب رونا، چیخنا، نیند کی کمی یا زیادتی، سردرد ، چھوٹی چھوٹی باتوں پرخود کو الزام دینا ،اپنے آپ کو کم تر اور بے وقعت محسوس کرنا، بچے سے محبت یا انسیت محسوس نا ہونا، بچے کو یاخودکو نقصان پہنچانے کے خیالات کاآنا، خودکشی یا مر جانے کے خیالات کا آنا۔

یہ ایک شدید بیماری جو ہر پانچ سو میں سے ایک ماں کو متاثر کرتی ہے اور عام طور پر بچے کی پیدائش کے کچھ دنوں یا ہفتوں بعد شروع ہوتی ہے۔ یہ بیماری زندگی کے لیے خطرہ بھی ثابت ہو سکتی ہے اس لیے اس کا فوری علاج لازمی ہے۔ اس میں مریضہ ایسی باتیں کرنے لگتی ہے جو باقی گھر والوں کو عجیب سی لگتی ہیں اور اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کب کیا کر گزرے گی۔ اس میں مزاج تیزی سے بدلتا ہے، عجیب وغریب خیالات آتے ہیں اور اکیلے میں آوازیں آنے لگتی ہیں۔ اس میں ڈاکٹری علاج لازمی ہوتا ہے اور ہسپتال میں داخلے کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔

…… وجوہات……

حمل کے اختتام اور زچگی کے وقت صبح میں ہونے والی ہارمونز Harmones کی تبدیلیوں کے اثرات ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ سماجی اور نفسیاتی وجوہات بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ازدواجی اختلافات، شوہر اور سسرال والوں کا عدم تعاون اور اکیلے رہنے والی خواتین میں PPD کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ عورتیں جن میں پہلے سے کوئی نفسیاتی بیماری کی ہسٹری ہو وہ بھی اس کا شکار ہو سکتی ہیں۔ 

کام کی زیادتی اور نیند کی کمی بھی کردار ادا کرتی ہے۔ ڈپریشن میں مبتلا ماؤں کے پاس عام طور پر کھانے کے لئے وقت نہیں ہوتا یا ان کو کھانے میں دلچسپی نہیں ہوتی ،جس کی وجہ سے ان میں بے چینی اور چڑ چڑاپن پیدا ہو سکتا ہے۔ بعض ماؤں کو زیادہ کھانے سے ذہنی سکون ملتا ہے لیکن اس کے بعد ان کو وزن بڑھنے کی پریشانی شروع ہو جاتی ہے۔ان کو کسی چیز میں کوئی خوشی یا دلچسپی نہیں ہوتی، کسی بھی چیز میں مزا نہیں آتا۔

……علاج……

جہاں تک علاج کا تعلق ہے تو تعاون، دوا، تھراپی، زیادہ تر محفوظ Anti Depressents مریضہ کو تجویز کی جاتی ہیں، جس کے نتائج چھ سے آٹھ ہفتوں میں سامنے آتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر ماں PPD کا شکار ہو تو بچے کے باپ کا بھی ڈیپریشن کا شکار ہونے کا بہت زیادہ امکان ہوتا ہے اور اس کے اثرات بچوں میں بھی نیند اور بھوک کے مسائل اور زیادہ رونے کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ بچاؤ کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ڈیلیوری کے بعد چیک اَپ ضرور کروائیں۔ گھر والوں سے مدد حاصل کریں۔ شوہر کا تعاون بہت ضروری ہے۔

چائے اورکافی کا استعمال کم کریں، واک کریں ، گھر سے باہر نکلیں، بچہ سو جائے تو خود بھی نیند پوری کرنے کی کوشش کریں۔ دنیا کے کئی ممالک میں عورتوں کے ساتھ ان کے شوہر کو بھی بچے کی ولادت پرچھٹیاں ملتی ہیں، تاکہ ماں باپ دونوں مل کر نومولود کو سنبھال سکیں اور اپنے روزمرہ کے معمولات انجام دے سکیں۔ بہت خوش کن بات ہے کہ پاکستان میں بھی وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی میںMaternity and Paternity Leave Bill2020 منظور کرلیا گیا ہے۔ ضرورت اب اس بات کی ہے کہ یہ بل صوبائی اسمبلیاں بھی منظور کرلیں، تاکہ ایک صحت مند گھرانے کی تشکیل میں مدد مل سکے۔

صحت سے مزید