• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عندلیب زہرا، راول پنڈی

بِلاشُبہ تن دُرستی ہزار نعمت ہے اور صحت مند زندگی سے بڑھ کر خُوب صُورت، اَن مول شے کوئی نہیں۔ اِس بات کا احساس تب ہوا، جب ہماری ملاقات تھیلیسیمیا کے شکار کچھ بچّوں سے ہوئی۔ دراصل، 2017ء میں والدہ صاحبہ خُون کی کمی کا شکار ہوئیں، اُن کا ایچ بی 4.6 تک جا پہنچا، جو خطرے کی علامت تھا۔ 

فوراً والدہ کو ایک اسپتال لے گئے، جہاں تھیلیسیمیا میں مبتلا بچّوں کا علاج بھی ہوتا تھا اور وہاں ہماری ملاقات ایک زرد رُو بچّے، اشعر سے ہوئی، جس کے سیاہی مائل چہرے پر نقاہت کا غلبہ، لیکن باتیں نہایت حوصلہ افزا تھیں۔ اس کے معصوم مسکراہٹ دل موہ لیتی تھی۔ 

وہ ہمیں اُداس دیکھ کر ہوا میں مُکّا لہراتے ہوئے بولا تھا۔ ’’آپی! حوصلہ رکھیں اور بس امّی کو اچّھی خوراک کھلائیں۔‘‘ اشعر تھیلسیمیا کا مریض تھا، جسے ہر چند دن کے وقفے سے خُون چڑھایا جاتا تھا۔ وہ اوائل عُمری سے اُس اسپتال آ رہا تھا اور اسپتال کا عملہ اُس سے اچّھی طرح واقف تھا۔ اُس کی ہرشوخی، شرارت میں زندگی کی رمق تھی۔ تاہم، اُس کی زندگی کا انحصار مستعار لیے گئے لہو کے اُن سُرخ قطروں پر تھا کہ جو اُس کے جسم میں زندگی بن کر داخل ہوتے تھے۔ 

وہ سب سے ہاتھ ملانے کا شائق تھا اور ہر رنگین شے کو چُھو لینا چاہتا تھا، جب کہ اشعر کی اُداس ماں کے لبوں پر ہمہ وقت آیاتِ قرآنی اور دُعاؤں کا وِرد جاری ہوتا۔ وہ اپنے بچّے کی زندگی کے ضمن میں آس و نِراس کے عالم میں تھی۔ اُس دُکھیاری ماں نے بتایا کہ خاندان میں شادی کے سبب اشعر تھیلیسیمیا کا شکار ہوا۔ 

اسپتال ہی میں ایک دس سالہ بچّی، مناہل سے بھی ملاقات ہوئی، جو بڑی ہوکر ڈاکٹر بنناچاہتی تھی۔ وہ جب یہ کہتی کہ ’’مَیں اپنا اسپتال بناؤں گی یا بچّوں کو سوئی نہیں چبھوؤں گی، تو اُس کی ماں کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوجاتیں۔ تب ہم نے سوچا کہ جب صحت مند بچّے دُکانوں سے اپنی مَن پسندچیزیں اور کھلونے خرید رہے ہوتے ہیں، تو تھیلیسیمیا کے شکار یہ معصوم بچّے اپنی زندگی کی بقا کی خاطر خُون کے حصول کے لیے سرگرداں ہوتے ہیں۔

تھیلیسیمیا نامی مرض جینزمیں رُونما ہونے والی بےقاعدگی کے باعث پیدا ہوتا اور ہیموگلوبن پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اِس مرض کے شکار افراد کو ہر کچھ عرصے بعد صحت مند خون کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ساتھ ہی اچّھی خوراک اور ایسی ادویہ کا استعمال بھی ضروری ہے کہ جس سے خُون کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے۔ تاہم، اس مرض سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کا تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کروایا جائے۔ 

بالخصوص، تھیلیسیمیا کے حامل مریضوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے لڑکے، لڑکیوں کا شادی سے پہلے ٹیسٹ لازماً ہونا چاہیے۔ اگر ٹیسٹ کے نتیجے میں ’’تھیلیسیمیا مائنر‘‘ کی تشخیص ہو، تو کوشش کریں کہ اُن کی آپس میں شادی نہ کروائی جائے، تاکہ یہ مرض اگلی نسل تک منتقل نہ ہو سکے۔ یہ ایک لاعلاج مرض ہے اور اس کے اثرات دیرپا اور سخت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ 

ایسے افراد، جن کے خاندان میں یہ بیماری موجود ہے، وہ حمل کی مدّت بارہ ہفتے ہونے کے بعد لازماً تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کروائیں اور اگر ’’تھیلیسیمیا میجر‘‘ کی تشخیص ہو، توحمل ضائع بھی کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، بہتر یہی ہے کہ شادی سے پہلے ہی اس بیماری کا ٹیسٹ کروالیا جائے تاکہ مرض کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

چُوں کہ تھیلیسیمیا کے شکار بچّے ریڈ سیلز کی کمی کا شکار ہوتے ہیں، لہٰذا اُن کی سانسوں کی روانی برقرار رکھنے کے لیے اُنہیں خُون لگوانا لازمی ہوتا ہے، جو دوسرے صحت مند افراد سے مستعار لینا پرٹا ہے اور اس عمل کے بہت سے سائیڈ ایفیکٹس ہوتے ہیں، جن میں جگر اور تلی کا بڑھنا، خُون میں آئرن کی مقدار کا حد سے تجاوز کرجانا، رنگت سیاہی مائل ہونا، یرقان لاحق ہونا (موسمِ گرما میں یہ مرض تھیلیسیمیا کے مریضوں پر ضرورحملہ آور ہوتا ہے) پیشاب میں جلن، بخار اور سَر درد قابلِ ذکر ہیں۔ 

علاوہ ازیں، اِن بچّوں کی باقاعدگی سے خُون کی اسکریننگ بھی لازماً کروانا پڑتی ہے، ورنہ انہیں ہیپاٹائٹس ’’بی‘‘ اور ’’سی‘‘ لاحق ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ 

دوسری جانب ایسے بچّوں کی نشوونما خاصی سُست روی سے ہوتی ہے اور اُن کے جسم میں درد رہنا عام سی بات ہے۔ تھیلسیمیا کے شکار بچّے کم زوری و نقاہت کے باعث کھیل کُو دسمیت دیگر مشاغل میں حصّہ لینے سے قاصر ہوتے ہیں، جب کہ سب سے افسوس ناک اَمر یہ ہے کہ اُنہیں ہمیشہ ہارٹ فیلیئر کا خدشہ رہتا ہے۔ 

مزید برآں، ان بچّوں کی قوّتِ مدافعت نہایت کم ہوتی ہے اور پھر مہینے میں دو سے تین مرتبہ خُون لگوانے اور جسم میں آئرن کم کرنے کے لیے انجیکشنز لگوانا بھی نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ایسی بچّیاں کہ جنہیں تھیلیسیمیا کامرض لاحق ہو، اُن میں بلوغت کا عمل خاصی دیر سے شروع ہوتا ہے۔ نیز، اُنہیں اپنی زندگی میں خاصی مشکلات اُٹھانی پڑتی ہیں۔

الغرض، ان بچّوں کی زندگی کا ہر لمحہ ہی تکلیف دہ ہوتا ہے اور پھر ان سے بھی زیادہ دُکھ ان کے والدین کو اُنہیں لمحہ بہ لمحہ موت کی جانب جاتا دیکھ کر اُٹھانا پڑتا ہے، کیوں کہ وہ محدود وسائل کے باعث بے بس ہوتے ہیں۔ یاد رہے، تھیلسیمیا کا علاج صرف ’’بون میرو ٹرانس پلانٹ‘‘ سے ممکن ہے، لیکن اُس پر بہت زیادہ لاگت آتی ہے اور زیادہ تر والدین یہ علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے۔

ایسے بچّوں کی طبعی عُمرکم ہوتی ہے۔ عُمر کے جس مرحلے میں اُنہیں رنگوں سے کھیلنا، بھاگنا، دوڑنا اور تتلیاں پکڑنا پسند ہوتا ہے، تب وہ زندگی اورموت کی کشمکش میں مبتلا ہوتے ہیں۔ سو، اگر آپ کسی کو اس قدر تکلیف دہ، کرب ناک زندگی سے بچانا چاہتے ہیں، تو شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کا تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ لازماً کروائیں۔ 

بد قسمتی سے پاکستان جیسے ترقّی پذیر مُلک میں صحت کے مسائل کے ضمن میں غیرسنجیدگی کامظاہرہ عام ہے۔ یہی وجہ ہےکہ تھیلیسیمیا کو بھی اتنی اہمیت نہیں دی جاتی، جس قدر اُس سے متعلق آگہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب ہمارے معاشرے میں خاندان، برادری میں شادی بیاہ کو ترجیح دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے تھیلیسیمیا سمیت دیگر امراض نسل در نسل منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ 

ذرا سوچیں کہ خدانخواستہ آپ کا بچّہ ایک نہایت تکلیف دہ بیماری کا شکار ہو اور اُس کی وجہ سے آپ بھی ہمہ وقت ایک کرب سے گزر رہے ہوں، تو کیا بہتر نہیں کہ شادی سے پہلے ہی تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کروا لیا جائے۔ 

پاکستان میں ایسے طبّی ادارے موجود ہیں، جہاں سے اِس بیماری سے متعلق مفید معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ واضح رہے، اس بیماری کے سبب نہ جانے کتنے ہی بچّے اپنے خوابوں، خواہشات کو حقیقت کارُوپ دینے سے قاصر رہتے ہیں کہ وہ اپنی آنکھوں ہی میں ڈھیروں ارمان سجائے اِس دُنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔

اس تکلیف دہ، کرب ناک اور بےبسی کی زندگی سے نجات کے لیے ہمیں اپنی سوچ میں تبدیلی لانا ہوگی اور شادی سے قبل لڑکے اور لڑکی دونوں کا تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ لازماً کروانا ہوگا۔

سنڈے میگزین سے مزید
صحت سے مزید