• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: محمد صادق کھوکھر ۔۔۔۔ لیسٹر
جس معاشرے میں آئین و قانون کی بالا دستی نہیں ہوتی وہ معاشرہ ترقی نہیں کر سکتاژ کسی بھی معاشرے میں رہنےکیلئے کچھ حدود اور ضابطے درکار ہوتے ہیں تاکہ لوگ امن و سکون سے رہ سکیں۔ قانون ہمیں اس لیے حدود و قیود کی پابندی سکھاتا ہے تاکہ ہم معاشرے کے دیگر افراد کے حقوق کو پامال کرنے کا باعث نہ بنیں۔ بد قسمتی سے پاکستانی معاشرہ آئین و قانون کی اہمیت سے بالکل نا واقف ہے۔ یہی وجہ ہے۔ کہ بحیثیت قوم ہم روبہ زوال ہیں۔ اگرچہ معاشرے کے ہر فرد کا فرض ہوتا ہے کہ وہ قانون کی پابندی کرے لیکن سب سے زیادہ فرض حکومت کا ہوتا ہے کہ وہ نا صرف خود قانون پر عمل پیرا ہو بلکہ ملک کے دیگر باشندوں کو بھی پابند کرے کہ وہ بھی ملکی قانون کی پاس داری کریں، یہ ہماری بد نصیبی ہے۔ کہ ہمارے ہاں قانون کو پامال کرنا باعثِ فخر سمجھا جاتا ہے۔ ایک طرف برسرِ اقتدار طبقہ اپنے ہاتھوں خود قانون کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ دوسری طرف حزبِ اختلاف کی جماعت پی ٹی آئی جتھوں کی صورت میں ملکی املاک کو تباہ و برباد کر کے نام نہاد "حقیقی آزادی" کا علم بلند کرتی ہے، بلا شبہ نو مئی کو جو کچھ ہوا وہ ملکی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے لیکن انہی دنوں پی ایم ڈی نے جس طرح سپریم کورٹ پر چڑھائی کی اس نے بھی ہر زی شعور انسان کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ بھی اپنے لاؤ لشکر سمیت ججوں کو قانون سکھانے اسلام آباد پہنچ گے، ریڈ زون میں تو عام حالات میں داخلہ ممنوع ہے لیکن ان کی دیدہ دلیری دیکھیں یہ حضرات اپنی حکومت کی نافذ کردہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈنڈوں سمیت سپریم کورٹ کی دیواریں پھلانگ گئے، حکومت نے خود سپریم کورٹ کےخلاف جنگ چھیڑی ہوئی ہے۔ یہ کیسی حکومت ہے، جو اپنی حکومت کی پابندیوں کو توڑ کر عوام الناس کے سامنے بطورِ مثال پیش کرتی ہے کہ قانون کس طرح دیدہ دلیری سے توڑا جاتا ہے، انہوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ملک میں قانون کی بالادستی نہیں بلکہ بالا دستی کا قانون رائج ہے، یہ ہر روز ججوں کا مذاق اڑاتے ہیں، پی ڈی ایم نے حکومت میں ہونے کے باوجود علانیہ خود دفعہ 144کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عدالت عالیہ کے سامنے مظاہرہ کیا۔ دوسرا واقعہ چوہدری پرویز الٰہی کی گرفتاری کا ہے، حکومتی اہل کاروں کو رات کے وقت گرفتاری کا خیال آیا پولیس کے اہل کار دیواریں پھلانگ کر اندر چلے گے پھر انہوں نے کرین کے زریعے مرکزی گیٹ کا دروازہ بھی توڑ ڈالا، چوہدری پرویز الہی گھر پر موجود نہیں تھے، اس لیے گرفتار نہیں ہو سکے، پولیس ان کے ملازموں کو گرفتار کر کے لے گئی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ کیا گرفتاری کے لیے گیٹ توڑنا لازم تھا؟ نیز ملازموں نے کیا قصور کیا تھا؟ جنہیں پولیس ناحق گرفتار کر کے لے گی۔ ہمارے دانشور کہتے ہیں کہ ریاست ماں کی مانند ہوتی ہے لیکن ہماری کیسی ریاست بن گی ہے، جہاں حکومت اور حکومت مخالف دونوں ہی ایک دوسرے سے بڑھ کر قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہیں، یہ کیسی ریاست ہے جہاں 21ویں صدی میں بھی عام آدمیوں کو "نامعلوم افراد" اٹھا کر لے جاتے ہیں، صحافیوں کو اغوا کر کے قتل کر دیا جاتا ہے، سید مودودیؒ نے سچ فرمایا تھا کہ جب باڑھ ہی کھیت کو کھانے لگے تو اس کھیت کی حفاظت کیسے ہو سکتی ہے، ہمارے سیاست دانوں میں متانت اور سنجیدگی نہیں رہی بلکہ ان میں انتہا پسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، ہر سیاست دان اپنی انتہا پسندی پر فخر کرتا ہے اگر غور کریں تو یہ حقیقت کھل کر عیاں ہوگی کہ ملک کے مسائل کی بنیادی وجہ یہی انتہا پسندی ہے لیکن ان نام نہاد رہبروں کو اس خرابی کا ادراک ہی نہیں کہ ایسے رویے سول وار کی راہ ہموار کرتے ہیں، ادراک ہوتا تو شاید یہ سنجیدہ رویہ اپناتے، میری ہر محبِ وطن سے گزارش کہ وہ انتہا پسند سیاست دانوں سے جلد کنارہ کشی اختیار کرلیں، اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ سیاست دان ملک میں انتشار پیدا کر کے خانہ جنگی کرا دیں گے اور ایک دوسرے کو الزامات دے کر خود الگ ہو جائیں گے اور عوام خانہ جنگی کا ایندھن بن کر جلتے جلتے خاک ہو جائیں گے، آخر ہم لیبیا، شام، لبنان، سوڈان اور دیگر عرب ملکوں کے حالات سے سبق کیوں نہیں سیکھتے۔
یورپ سے سے مزید