ماجد احمد
ایک مسافر ایک بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا، بزرگ نے فرمایا.. ” کھانے کا وقت ہے آؤ کھانا کھالو.. ” مسافر ان کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھ گیا۔ جب کھانے سے فارغ ہوئے تو مسافر نے دسترخوان کو لپیٹنا شروع کیا، تاکہ جاکر دستر خوان جھاڑدے تو بزرگ نے فرمایا.. ” کیا کر رہے ہو..؟ ‘‘
مسافر نے کہا.. ” حضرت دسترخوان جھاڑنے جارہا ہوں۔‘‘بزرگ نے پوچھا ”دسترخوان جھاڑنا آتا ہے؟ مسافر نے کہا، دسترخوان جھاڑنا کون سا فن یا علم ہے، جس کے لئے باقاعدہ تعلیم کی ضرورت ہو، باہر جا کر جھاڑ دوں گا‘‘
بزرگ نے کہا،” اسی لئے تو میں نے تم سے پوچھا تھا کہ دسترخوان جھاڑنا آتا ہے یا نہیں؟ اس کا مطلب ہےکہ تمھیں دسترخوان جھاڑنا نہیں آتا۔ مسافر نے کہا ” پھر آپ سکھا دیں‘‘ بزرگ نے کہا،’’ دسترخوان جھاڑنا بھی ایک فن ہے۔ انہوں نے دسترخوان کو دوبارہ کھولا اور اس پر جو بوٹیوں کے بچے ہوئے ٹکڑے اورں کو جن پر کچھ گوشت وغیرہ لگا ہوا تھا اُن کو ایک طرف کیا اور روٹی کے جو چھوٹے چھوٹے ذرّات تھے اُن کو ایک طرف جمع کیا پھر مسافر سے بولے، ”دیکھو ! یہ چار چیزیں ہیں۔
میرے یہاں ان چاروں کی علیحدہ علیحدہ جگہ مقرر ہے یہ جو بوٹیاں ہیں، ان کی فلاں جگہ ہے۔ بلی کو معلوم ہے کھانے کے بعد اس جگہ بوٹیاں رکھی جاتی ہیں وہ آکر ان کو کھالیتی ہے۔ ہڈیوں کے لئے فلاں جگہ مقرر ہے محلے کے کتوں کو وہ جگہ معلوم ہے وہ آکر ان کو کھالیتے ہیں اور جو روٹیوں کے ٹکڑے ہیں۔ اُن کو میں دیوار پر رکھ دیتا ہوں، انہیں کھا لیتےہیں۔ ور یہ جو روٹی کے چھوٹے چھوٹے ذرات ہیں انہیں میں گھر میں جو چیونٹیوں کےبَل ہیں و ہاں رکھ دیتا ہوں، وہ کھا لیتی ہیں۔ یہ سب اللہ جل شانہ کا رزق ہے،اس کا کوئی حصہ ضائع نہیں جانا چاہیے۔