محمد مصطفیٰ
"ارے مصطفیٰ! پودوں کو پانی تو دے دو۔"امی نے یاد دلایا۔
آ ج مصطفٰی پانی دینا بھول گیا تھا۔ اس کے گھر میں ایلوویرا اور سبزیاں گملوں میں لگی ہوئی ہیں۔
’’بھئ! ماہین آپا سے کہہ دیں۔ کل میں نے دیا تھا۔" اس نےسستی سے ہاتھ ہلاتے ہوئےجواب دیا۔
"دیکھو تمھیں نیکی کمانے کا موقع ملا ہے۔ ضائع مت کرو ۔‘‘امی نے کہا ۔
مصطفٰی کو آخر اٹھنا ہی پڑا۔ آپااسے دیکھ کر ہنس رہی تھیں۔ اس نے چِڑ کر منہ بنایا اور پانی دینے کے لیےچلا گیا۔
وہ بالٹی میں پانی اور ڈونگا لے کر پودوں کی طرف آگیا ۔ سب سے پہلے تو کھڑکی کے پاس آکر لمبا سانس کھینچا اور تازہ آکسیجن اپنے اندر لی۔پانی کے لیے سب سے پہلے پودینے کی باری آئی۔ ڈونگے میں پانی بھرکرڈالا۔ پھر سفید پھولوں میں پانی ڈالا۔ کچھ ہی دیر میں سارے پودوں کو پانی دے کر فارغ ہو گیا۔ اس نے غور سے دیکھا کہ پودوں کو بڑا ہونے کے لیے مزیدجگہ چاہیے ۔
مصطفٰی نے آپاسے کہا کہ پودوں کو بڑے گملوں میں ڈال کر نانا جی کے ہاں رکھوا دیتے ہیں۔ وہ گھر کے پاس نرسری سےگملے لے آیا۔ اس نے کھاد آن لائن منگوائی تھی۔ اخبار بچھایا او دونوں بہن بھائی کام پر لگ گئے۔ انہیں اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں پودے ٹوٹ نہ جائیں ، اس لیے آپی اور ابو جان کی مدد سے بڑی احتیاط سے پودے بڑے گملوں میں منتقل کیے۔ شملہ مرچ اور دھنیے کے گملے نانی جان کی ہاں لے گئے۔
باقی دو گملے رہ گئے تھے، ان کو ابو کے ساتھ گاڑی میں لے کے جا رہا تھا لیکن راستے میں وہ لڑھک گئے اور کھاد بکھر گئی۔ ابو سامان لینے اترےتو مصطفٰی نے گاڑی صاف کرنی شروع کردی ۔ پہلے ساری کھاد جمع کی اور پودے گملوں میں ٹھیک سے لگائے۔ گاڑی کی صفائی کرتے کرتے ہاتھ درد ہورہے تھے لیکن گاڑی کے میٹس پھر بھی اچھے صاف نہ ہوئے۔ اس پر ابو کی ڈانٹ بھی سننی پڑی۔خیر !انہوں نے پودے نانی کی ہاں رکھوائے۔ کچھ دنوں بعد پودے بڑے ہو گئے۔ خوبصورت بھی لگ رہے تھےوہ خوشی سے انھیں دیکھ رہا تھا کہ کسی کی آواز آئی۔
" پیارے بچے! "
مصطفٰی ڈر گیا کہ وہاں تو کوئی نہیں تھا آواز کہاں سے آرہی ہے۔ ایک بار پھر آواز آئی،
" گھبراؤ نہیں، میں تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔"
مصطفٰی نے کہا: " تم کون ہو اور کیوں شکریہ اداکرنا چاہتے ہو؟ "
اُس نے غور کیا کہ آواز ان پودوں سے آرہی تھی۔
" میں وہ پودا ہوں جو تمہارے سامنے ہوں تم نے میرا بہت خیال رکھا، پانی دیا اور پرندوں سے بچایا اور سارے پودے تمہارے بارے میں ایسا ہی سوچتے ہیں"۔ وہ پودے کی باتیں سن کر حیران ہورہا تھا۔
پودے نے کہا :" میں تمہارا شکر گزار ہوں کہ تم نے مجھے ایک خوبصورت سی زندگی جینے میں مدد کی۔ اللہ تمہیں بھی صحت عطا کرے۔"
آواز آنا بند ہوگئی وہ ہرے بھرے پودوں کو دیکھ دیکھ کربہت خوش ہورہاتھا۔
پیارے بچو! ہرے بھرے پودے اور ان پر لگے پھول ماحول کو دلکش بنادیتے ہیں۔ آنکھوں کو تازگی بخشتے ہیں ۔ آپ بھی اپنے گھروں میں مصطفٰی کی طرح پودے لگائیں۔ بچے امتحانات سے فارغ بھی ہوگئے ہوں گے اور نتائج بھی آگئے ہوں اور اب تو گرمیوں کی چھٹیاں بھی ہیں ایسے میں یہ آپ کا بہترین مشغلہ ہو سکتا ہے۔ بس آج سے شروع ہوجائیں۔