• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال کےساتھ ساتھ سائبر کرائم کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والے بیش تر صارفین سائبر کرائم میں ملوث ملزمان کی چالاکیوں اور کام کے طریقوں سے ناواقف ہیں، جب کہ سرکاری سطح پر بھی صارفین کو سوشل میڈیا کے محفوظ طریقہ استعمال سے متعلق باقاعدہ کوئی آگاہی فراہم نہیں کی جاتی ہے، جس کے باعث آئے روز سادہ اور معصوم لوگ ملزمان کے ہاتھوں اپنی جمع پونجی بھی کھو رہے ہیں اور بلیک میل بھی ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں مختلف غیر اخلاقی ایپلی کیشنز کا دھندہ اس وقت عُروج پر ہے ،ان ایپلی کیشنز کے ذریعے نہ صرف صارفین اپنی جمع پونجی سے محروم ہو رہے ہیں، بلکہ ان کو آپریٹ کرنے والے منظم گروہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو بلیک میل کر کے اپنے مفادات بھی حاصل کر رہے ہیں۔ 

پاکستان میں اس وقت متعدد ایسی ایپلیکیشنز کام کر رہی ہیں، جن میں لڑکے اور لڑکیاں چیٹ (chat ) کرتے ہیں، مختلف شہروں سے ان ایپلی کیشنز کو آپریٹ اور ہوسٹ کرنے والے منظم گروہ ان ایپلی کیشنز کے ذریعے نوجوانوں کو بلیک میل کر کے ان سے پیسے وصول کرتے ہیں اور پیسے نہ دینے کی صورت میں ان کی فیملی کو ان کی ویڈیوز اور قابل اعتراض تصاویر بھیجی جاتی ہیں۔ خواتین کو ایپلی کیشن کے ذریعے کلائنٹس سے ملوایا جاتا ہے، پہلے ان خواتین سےکہا جاتا ہے کہ وہ ون ٹو ون چیٹ کریں۔

اس دوران جب کلائنٹ سے بے تکلفی ہو جاتی ہے ، تو پھر اس کی ڈیمانڈ پر فحش حرکات کی جاتی ہیں اور اگلے مرحلے میں اسے پرائیوٹ چیٹ کے لیے کہا جاتا ہے اور ان کی ڈیمانڈ کو پورا کیا جاتا ہے، غیر اخلاقی ویڈیو کے لنک پر خواتین کو کرنسی کے نام پر ڈائمنڈ دیےجاتے، خواتین جتنے زیادہ ڈائمنڈ حاصل کرتیں، اتنی زیادہ انہیں تنخواہ دی جاتی،ڈریگن یا اسٹار کوائن حاصل کرنے پر پاکستانی روپے میں خواتین کو پے منٹ کی جاتی ہے۔ یہ گروہ لڑکے اور خصوصاً لڑکیوں کو dirty talks کے لیے مجبور کرتے ہیں۔

ایپلیکیشنز میں پہلے گروپ کی صورت میں چیٹ ہوتی ہے، لڑکیوں کے اکاؤنٹس بنائے جاتے ہیں، جو نوجوانوں کا اعتماد حاصل کرتی ہیں اور پھر پرائیوٹ نمبر شئیر کر کے نوجوانوں کےساتھ فحش تصاویر اور ویڈیوز شئیر کی جاتی ہیں اور اس کے بدلے ان سے تحائف اور اسٹار کوائن وصول کیے جاتے ہیں اور ایزی پیسہ کے ذریعے بھی رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے، اسی طرح پرائیویٹ نمبر کے ذریعے لڑکوں کو کسی جگہ ملنے کے لیے بُلایا جاتا ہے اور وہاں یہ گروہ ان سے فراڈ کر کے ساری رقم لوٹ لیتا ہے۔ نوجوانوں کی تصاویر اور ویڈیوز اسٹور کر لی جاتی ہیں اور پھر انھیں بلیک میل کر کے بھی رقم کا تقاضا کیا جاتا ہے،بعض اوقات متاثرہ فرد کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ اس کی ویڈیو بن رہی ہے اور اسی لاعلمی میں وہ بعد میں بلیک میلنگ کا شکار ہوتا ہے۔ 

یہ مکروہ دھندہ اس قدر پھیل چکا ہے کہ ایزی منی easy money کے فراڈ میں عزت دار گھرانوں کی بچیاں بھی اس فراڈ کا شکار ہو رہی ہیں۔ نوجوان لڑکیوں سے ان کی قابل اعتراض تصاویر اور ویڈیوز منگوائی جاتی ہیں اور انھیں گیم کوائن یا گفٹ بھیجے جاتے ہیں۔ مختلف ایپس کے ذریعے نوجوانوں کو ان کے فون نمبرز یا جی میل آئی ڈی کے ذریعے رجسٹر کیا جاتا ہے، ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد لائیو براڈکاسٹ کا آپشن آتا ہے، جس میں نوجوان لڑکیاں لائیو بیٹھی ہوتی ہیں اور وہ سادہ لوح شہریوں سے ان کی جیبیں خالی کرواتی ہیں ،ورچوئل کرنسی کے نام پر انھیں غیر اخلاقی کاموں کے لیے مجبور جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایف آئی اے سائبرکرائم سرکل کراچی نے کارروائی کرتے ہوئے جنسی ہراسگی میں ملوث گینگ کے سرغنہ اور اس کے ساتھی کو فیصل آباد سے گرفتار کیا ہے۔

ایف آئی سے حکام کے مطابق ملزم عمر گجر دیگر ساتھیوں کی ملی بھگت سے خواتین کی قابل اعتراض ویڈیوز وائرل کرنے میں ملوث تھا۔ گرفتار ملزم اسنیک ویڈیو snack video ایپ کے ذریعے خواتین کی قابل اعتراض ویڈیوز حاصل کر کے بلیک میل کرتے تھے، ملزم کے خلاف خاتون کے بھائی نے درخواست ایف آئی اے میں جمع کروائی تھی، ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزم نے متاثرہ خاتون کی قابل اعتراض تصاویر اور ویڈیوز شئیر کیں، جب کہ ملزم ان ویڈیوز کی آڑ میں متاثرہ خاتون سے مزید ویڈیوز کا تقاضہ بھی کر رہا تھا۔ملزم نے متاثرہ خاتون کے گھر والوں کو بھی ویڈیوز بھیجنے کے لیے دھمکیاں دیں۔ ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ ملزمان نے ویڈیوز وائرل کرنے کے لیے متعدد اکاونٹس بنائے ہوئے تھے۔

ابتدائی تفتیش کے مطابق ملزم کے موبائل سے قابل اعتراض مواد اور سنیک ویڈیو اکائونٹس برآمد کر لیے گئے ہیں، جب کہ ملزمان کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ گینگ میں ملوث دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے لاہور اور فیصل آباد میں چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ ملزمان لائیو براڈ کاسٹ میں فحش اور نازیبا گفتگو بھی کرتے تھے، ملزمان خود کو ایف آئی اے، نیب، پولیس اور حساس اداروں کا اہل کار ظاہر کرکے بھی نوجوان لڑکے لڑکیوں کو بلیک میل کرتے تھے، ملزمان مذکورہ ایپ کی ہوسٹنگ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو دلواتے تھے، جب کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنا ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے بھی ملزمان سے رابطہ کرتے تھے اور ان کا ٹارگٹ پورا کرنے کے عوض یہ ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے تھے،ملزمان کا نیٹ ورک اتنا مضبوط ہے کہ ملزمان کی گرفتاری کے بعد ان کے گروہ کی جانب سے درخواست گزار کو مسلسل دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے صارفین صرف رجسٹرڈ ایپس کا استعمال کریں، کسی بھی سوشل میڈیا ایپ پر اپنی پرسنل انفارمیشن،تصویر اور ویڈیوز اپ لوڈ نہ کریں۔ 

کسی بھی نامعلوم unknown لنک کو کلک نہ کریں۔ کسی بھی لالچی انعام اسکیم کا حصہ نہ بنیں۔موبائل فون محفوظ secure ڈیوائس نہیں ہے اور نہ کوئی بھی چیز مستقل delete ہوتی ہے۔ والدین اپنے بچوں کے موبائل فونز پر کڑی نظر رکھیں کہ وہ کون سے ایپ استعمال کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ اس طرح کی ایپس اور لِنک کو نہ کھولیں، کیوں کہ آپ کو نہیں پتہ کہ سامنے بیٹھا ہوا شخص original ہے یا fake ہے اور اس کے ارادے کیا ہیں؟آپ جو چیز اس سے شئیر کر رہے ہیں، وہ اس ایپ کے سرور سے ہو کر جا رہی ہے اور وہاں پر اس کا ریکارڈ رکھا جا رہا ہے، اس طرح کی ایپ verified بھی نہیں ہوتیں اور پتہ نہیں کن کے سرور ہوتے ہیں ،ان سرورز سے پھر یہ لیک بھی ہو جاتی ہیں اور بعد میں یہ بلیک میلنگ کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ 

ایف آئی اے کے مطابق آپ کی identity کوئی بھی ہو ، ایک بار آپ کی تصویر اور ویڈیو کلاؤڈ پر چلی گئی تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی اسے کہیں بھی اپ لوڈ کر کے misuse کر سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کی جانب سے صارفین کو سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کو بھی مزید افرادی قوت اور وسائل مہیا کیے جائیں تاکہ ان جرائم میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید