احسن اقبال
بہت کم نوجوان اب تحقیقی بنیادوں پر کچھ کرنے کی سکت رکھتے ہیں، اکثریت جو ، جیسا، جہاں ہے کی عادی ہو چکی ہے، جس کی بنا پر تحقیقی کام جان پر گراں گزرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ذہنی وسعتیں سکڑتی جا رہی ہیں اور علم کے وہ چشمے جو مطالعے کی بنیاد پر اُبلتے تھے، خشک ہوتے جا رہے ہیں۔گھمبیرصورتِ حال تب جنم لیتی ہے جب نوجوان اپنی ملکی نظریاتی اساس اور مذہبی تشخص سے ناواقف اور متعدد ملکوں کی ثقافتی و نظریاتی یلغار کے زیرِ عتاب ہوں۔اس میں دورائے نہیں کہ ہم ابھی بھی حالات ِجنگ میں ہیں۔
قوموں کی ترقی نوجوانوں کے عمل سے جڑی ہوتی ہے ،ان کی سرگرمی مستقبل کا رخ متعین کرتی ہے۔نوجوان طبقہ کسی بھی قوم کا نظریاتی اور عملی محافظ ہوتا ہے، اگر کسی قوم کے نوجوان نظریاتی انتشار کا شکار ہو جائیں تو یہ اس قوم کے لیے ذہنی غلامی کا دور ہوتا ہے۔ اکیسوی صدی اگرچہ اپنے ساتھ جدیدت کا سامان لائی لیکن اس کے ساتھ ساتھ معیارات اور ترجیحات میں بھی نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں ، اس تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر نوجوان نسل پر ہی ہو ا ہے،جو نہ صرف اپنی روایات اور ثقافت کو فراموش کر چکے ہیں بلکہ یورپی اور مغربی روایت کا خوشدلی سے اثر قبول کر رہے ہیں۔ اپنی اقدار وتہذیب کو اپنے ہی ہاتھوں سے تباہ کررہے ہیں۔
زندہ اقوام کبھی اپنے ماضی سے رابطہ نہیں توڑتیں بلکہ مستقبل میں رہنمائی لیتی اور حال کابھی سبق حاصل کرتی ہیں۔ اُن کے اندر کچھ کر گزرنے کی خواہش بھی اسی سے پیدا ہوتی ہے لیکن آج نسل نو اپنے ماضی سے بے خبر ہے۔ مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر اپنے اصل مقصد سے بے گانہ ہوچکی ہے۔ ہم جس تہذیب و ثقافت سے وابستہ ہیں، یہ چودہ سو سال سےمکمل دین کی صورت میں ہمارے پاس ہے۔
لیکن جس دین اور کلچر نے ہمیں منفرد مقام عطا کیا تھا، نئی نسل اس سے بیگانہ ہوتی جا رہی ہے۔روشن خیالی کے نعرے نے معاشرتی بگاڑ میں مزید اضافہ کر دیا ہے ۔ دیگر مسلم معاشروں کی طرح ہماری نوجوان نسل بھی مغربی سیلاب میں بہنے لگی ہے۔ جب تک والدین اولاد کی تر بیت پر توجہ نہیں دیں گے، انہیں تمیز و تہذیب نہیں سکھائیں گے، تب تک نسلِ نو اپنی تہذیب واقدار یا روایات کیسے سیکھیں گے۔ ہم اپنی اقدار و تہذیب کو کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کر رہے ہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد خود سر، بد تمیز اور بد لحاظ ہے۔والدین کا کہنا تک نہیں مانتے ہیں، اگر وہ انہیں غلط کام سے منع کر رہے ہوتے ہیں تو بجائےاس کے کہ وہ ان کے حکم کی تعمیل کریں، ان سے، زبان درازی کرتے ہیں۔ ان میں برداشت کا مادہ بھی کم ہوتا جارہا ہے، وہ کسی بھی غیر متوقع صورتحال کا صبر و تحمل سے سامنا کرنے کے بجائے فوراً طیش میں آجاتے ہیں اور شدید ردعمل کا اظہار کرکے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں، ذرا پروا نہیں کرتے کہ اس کہ نتائج کتنے خطرناک ہوسکتے ہیں اور منفی اثرات کتنی دور تک پہنچ سکتے ہیں۔
”آج کا نوجوان کل کا مستقبل“ یہ جملہ اکثر سنتے اور پڑھتے ہیں، اس جملے کے پیش نظر اگر ہم چند لمحات کے لیے آج کے نوجوان کا جائزہ لیں اور کل کے مستقبل کے بارے سوچیں تو کافی خدشات دماغ میں گردش کرتے ہیں۔ نوجوان اپنی صلاحیتوں کو صحیح معنوں میں استعمال نہیں کر رہے، بلکہ ان میں سے اکثر ایسی راہ پر چل نکلے ہیں جو نہ صرف اْن کے اپنے بلکہ معاشرہ کی بہتری کےلئے بھی کسی طور مناسب نہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ نوجوانوں کی بہتری میں والدین اور نہ ہی حکومت نے اپنی ذمے داریاں پوری کیں۔
ملک میں سیاسی اور سماجی و اقتصادی ترقی کے لیےاُن کی ہر سطح پر حوصلہ افزائی کی اشد ضرورت ہے۔نوجوانوں کو بھی چاہیے کے وہ اپنے ہم عمر ساتھیوں کے اثر میں آکر اپنی ترجیحات اور اپنے مقاصد میں تبدیلی نہ لائیں۔ اکثر نوجوان اپنے دوست احباب کی باتوں میں آکر اپنے مقاصد سے منحرف ہو جاتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں کرپاتے۔
قومی ترقی میں نوجوانوں کا مثبت کردار ادا کرنے اور مستقبل کے چیلینجوں سے نمٹنے کی تیاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ جدید دنیا اور نئے سماجی، سیاسی اور معاشی رجحانات کو سمجھنے اور ان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے تعلیمی میدان میں زیادہ سے زیادہ آگے بڑھیں، وقت کی قدر کریں اور زندگی کا کوئی لمحہ بے مقصد نہ گزاریں۔ حق وصداقت کے علم بردار عدل وانصاف کے داعی، کردار کے غازی بنیں، صلہ رحمی، اخلاق ومروت کو شعار بنائیں۔ گزرے کل کو سمجھیں اورآج ہی سے آنے والے کل کے لیے کوشاں ہوجائیں۔