• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جپسم جو اجزائے ترکیبی کی مناسبت سے آبی کیلشیم سلفیٹ پر مشتمل ہوتا ہے تمام غیر دھاتی قدرتی وسائل میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے ،کیوں کہ یہ صدیوں سے طبی نقطۂ نظر سے سودمند ثابت ہوا ہے۔ مثلاً ہڈیوں کی خلل کی صورت میں ’’سرجری‘‘ کے بعد حفاظتی دیوار کے طور پر بہت ہی کارآمد ثابت ہوا ہے جب کہ دوسری طرف دور جدید میں زیر زمین تیل و گیس (پٹرولیم) بردار ساخت میں بطور حفاظتی تہہ کی حیثیت سے دریافت ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت اور بھی دوبالا ہوگئی ہے۔ 

قدرتی طور پر جپسم کا تعلق تبخیری معادنی خاندان سے ہے، جس میں کیلشیم آکسائیڈ 32.5فی صد، سلیکان ڈائی آکسائیڈ 46.6فی صداور پانی 20.9فی فی صد موجود ہوتا ہے۔ تبخیری معادن سے مراد ایسے تمام قدرتی مرکبات یا معادن جو سمندری پانی کے تبخیری عمل کے نتیجے میں وقع پذیر ہوتی ہیں۔ ’’تبخیری معادن‘‘ (Evaporites) کہلاتی ہیں۔ مثلاً چٹانی نمک (بیلائٹن)، جپسم، این بائیڈر رائیٹ اور دوسری مرکبات بھی شامل ہوتی ہیں جو عام طور پر سمندر کے ان حصوں میں تشکیل پاتی ہیں جو کھلے سمندر سے کٹ جاتی ہے اور طاس نما ساخت میں تبدیل ہوجاتی ہیں، جس میں سمندر کا نمکین پانی کا محلول داخل ہوتا ہے لیکن اس کی واپسی بہت کم ہوتی ہے۔

گویا پانی کی بڑی مقدار طاس میں ساکن و جامد رہتی ہے، جس پر تبخیری عمل پر درجۂ حرارت پر اثرانداز ہوتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے پانی بھاپ بند کر فضا میں فرار ہوتا ہے اور طاس کے فرش پر نمک اور جپسم کی قلمیں مرکوز ہوجاتی ہیں لیکن محلول حل پذیری کی بنیاد پر جمع ہوتی ہیں یعنی سب سے کم حل پذیر مرکب سب سے پہلے قلم پذیر ہوتی ہیں۔ مثلاً کاربونیٹ گروپ اور جس سے زیادہ حل پذیر مرکب والے مرکبات سب سے آخر میں قلم پذیر ہوتی ہیں۔ مثلاً کاربائیڈز۔ 

چناں چہ طاس میں سب سے پہلے جپسم ’’کیمیائی رسوب کی شکل اختیرا کرتی ہے اس طرح جپسم کی تہہ یکے بعد دیگرے چٹانی نمک کے ساتھ طاس کے فرش پر جمع ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں کیمیائی رسوب مثلاً کیلشیم کاربونیٹ، جپسم کی معتدل مقدار غیر آبی کیلشیم سلفیٹ (این ہائیڈرائٹ) کی آبدیدگی (Hydration) سے گہرائی میں بیرونی دباؤ (سب سے زیادہ گہرائی 100-150میٹر میں بھی تخلیق پاتی ہیں۔ یعنی اس دباؤ پر غیر آبی کیلشیم سلفیٹ پر پانی کی شمولیت اور جماڑ کے عمل سے آبی کیلشیم سلفیٹ کی تخلیق ہوتی ہے جو ’’جپسم‘‘ ہوتا ہے۔ ساتھ ہی اس کے حجم میں بھی تقریباً 35فی صد کا اضافہ ہوتا ہے۔ 

یہاں پر اس بات کو ذہن میں رکھنا ہے کہ ایک معدن کے دو نام ہیں جو کیمیائی تعامل کے بعد ایک دوسرے سے تبدیل ہو کر وجود میں آتے ہیں۔ اس لئے یہ طریقہ ’عمل بدلاؤ (Reversable Rotaion) کہلاتا ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ جب جپسم بردار تہہ پر دباؤ کے زیر اثر آبیدگی (Hydration) کا عمل ہوتا ہے تو اس میں پانی کی شمولیت ہوتی ہے ،جس سے آبی کیلشیم سلفیٹ کی تشکیل ہوتی ہے لیکن جب ’’جپسم‘‘ پر ڈی ہائیڈریشن (Dehydration) کا عمل ہوتا ہے تو پانی باہر نکل جاتا ہے اور صرف کیلشیم سلفیٹ باقی رہ جاتا ہے جسے ’’این ہائیڈرائیٹ‘‘ کہتے ہیں۔ فرق صرف ان کی سختی میں ہوتا ہے۔جپسم کی سمتی موز (Mohs) سختی کے پیمانے کی رو سے دو ہوتی ہے لیکن جب پانی باہر نکل جاتا ہے تو ’’این ہائیڈرائٹ‘‘ کی سختی تقریباً 2.5ہوجاتی ہے چوں کہ ناخن کی سختی 2.5ہوتی ہے۔ 

اسی وجہ سے جپسم این ہائیڈرائٹ کے مقابلے میں آسانی سے کھرچ جاتا ہے ۔یعنی اس کا پاؤڈر آسانی سے ناخن پر آجاتا ہے جب کہ این ہائیڈرائٹ کی صورت میں ناخن کھرچنے لگتا ہے۔ دنیا میں پائی جانے والی ’’جپسم‘‘ کے ذخائر زیادہ تر اسی قسم کے عمل سے وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ریگستانی اور نیم ریگستانی خطوں میں نسوں گومڑ کی شکل میں موسم زدگی سے متاثرہ چٹانوں کے کرسٹ میں پائے جاتے ہیں۔ یہ گندھک کے تیزاب ملے پانی میں یا حل پذیر سلفائیڈز کے عمل سے بھی تشکیل پاتی ہیں۔ 

بعض اوقات یہ آکسائیڈز زون یا سلفائیڈ ذخائر میں بھی موجود ہوتے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر مرحلوں میں جب سلفائیڈ دھات پائیرائٹ پر مشتمل ہوتا ہے تو اس کے تکبیدی عمل سے سطح پر موجود پانی میں گندھک کے تیزاب کے اجزا میں اضافہ ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے تیزاب زدہ سطحی پانی ’’جپسم‘‘ کے ذخائر عام طور پر چٹانوں یا ابتدائی کچی دھات کے بالائی زون کے دراڑوں میں بعض دوسرے سلفیٹ کے ساتھ منسلک پائے گئے ہیں۔

عمل تبخیر کے دوران مختلف نمکیات کی پائیداری کا تخمینہ تجرباتی طریقے یا پھر طبی کیمسٹری کے اعدادوشمار سے لگایا گیا ہے ،جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ کیلشیم سلفیٹ کی ترتیب دو صورتوں میں یعنی ہائیڈریٹڈ معدن (جپسم) اور غیر ہائیڈریٹڈ (این ہائیڈرائٹ) کے طور پر عمل میں آتی ہے۔ دونوں صورتوں میں محلول کی بلند سپر شدگی درجۂ حرارت، حل پذیری اور بخارات کے دباؤ کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ 

اگر محلول میں صرف کیلشیم سلفیٹ موجود ہوتا ہے تو 60ڈگری سینٹی گریڈ پر ’’این ہائیڈریٹ‘‘ کی قلم پذیری عمل میں آتی ہے جب کہ 42ڈگری سینٹی گریڈ درجۂ حرارت پر جپسم کی تہہ نشینی ہوتی ہے۔ خلیج فارس میں موجود ذخائر اس کی ایک مثال ہے جہاں 80ڈگری سینٹی گریڈ پر ’’این ہائیڈرائٹ‘‘ کی ترتیب عمل میں آتی ہے۔

جب کہ کھلے پانی جہاں کا درجۂ حرارت 42ڈگری سینٹی گریڈ وہاں جپسم یک تہہ نشینی عمل میں آتی ہے۔ ’’جپسم‘‘ میں ایک غیر معمولی خصوصیت پائی جاتی ہے کہ اس کل حل پذیری 37-38ڈگری سینٹی گریڈ پر بلند ہوتی ہے اور اس کے بعد اچانک کم ہو جاتی ہے اور اس کے بعد تیزی سے گرنے لگتا ہے۔ تیزی سے گرنے کا عمل 107ڈگری سینٹی گریڈ پر ہوتا ہے۔ تھرمو گراف (Thermograph) کے ذریعہ اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے کہ جب جپسم کو ہوائی دباؤ میں گرم کیا جاتا ہے تو 80-90 ڈگری سینٹی گریڈ پر پانی ضائع ہونے لگتا ہے جب کہ 120-140ڈگری پر مکمل طور پر پانی سے غیر موجود ہائیڈریٹ (Hemihydrate) کی تخلیق عمل میں آتی ہے۔

جسے پلاسٹر جپسم یا پلاسٹر آف پیرس کہا جاتا ہے جو چیپ مار مادّہ (adhesive) ہوتا ہے ،جس میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ یہ ہڈیوں کے فریکچر کو درست پوزیشن میں پابند رکھتا ہے۔ جب کہ دور حاضر میں یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ جپسم تیل و گیس بردار ساخت میں سب سے بالائی جانب حفاظتی تہہ (Protecting Layer) کے طور پر موجود ہوتا ہے چونکہ یہ غیر منسلک مساموں پر مشتمل ہوتا ہے ،جس کی وجہ سے تیل و گیس جو کم کثافت کی حامل ہونے کی وجہ سے اوپر اٹھنے کا رجحان رکھتا ہے لیکن جپسم کی تہہ اسے فضا میں فرار نہیں ہونے دیتی۔

اس طرح ایک نفع بخش تیل و گیس کے ذخائر زیر زمین ذخیرہ اندوز چٹانوں میں محفوظ ہوجاتے ہیں۔ جپسم پورے ارضیاتی دور اور دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی جپسم طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کی موجودہ پیداوار زیاذدہ تر داؤد خیل، کھیوڑہ اور ڈنڈوٹ سے حاصل کی جارہی ہے۔ جیسے کھاد کی تیاری، سیمنٹ سازی اور ربڑ کی صنعت میں جپسم کافی مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
ٹیکنالوجی سے مزید