……اسرار الحق مجاز……
بس ایک ہی بری عادت ہے۔ صاحب!
ایک فلمی اخبار کے ایڈیٹر مجاز سے انٹرویو لینے کے لئے مجاز کے ہوٹل پہنچ گئے۔ انہوں نے مجاز سے ان کی پیدائش، عمر، تعلیم اور شاعری وغیرہ کے متعلق کئی سوالات کرنے کے بعد دبی زبان میں پوچھا:
’’میں نے سنا ہے قبلہ، آپ شراب بہت زیادہ پیتے ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘
’’کس نامعقول نے آپ سے یہ کہا کہ میں شراب پیتا ہوں۔‘‘ مجاز نے کہا۔
’’تو پھر آپ سگریٹ کثرت سے پیتے ہوں گے؟‘‘
’’نہیں میں سگریٹ بھی نہیں پیتا، شراب نوشی اور سگریٹ نوشی دونوں ہی بری عادتیں ہیں اور میں ایسی کسی بری عادت کا شکار نہیں۔‘‘ مجاز نے جواب دیا۔
ایڈیٹر نے سنجیدہ لہجہ میں پوچھا، ’’تو آپ میں کوئی بری عادت نہیں ہے؟‘‘
مجازنے اتنی ہی سنجیدگی سے جواب دیا:
’’مجھ میں صرف ایک ہی بری عادت ہے۔۔۔ کہ میں جھوٹ بہت بولتا ہوں۔‘‘
……٭٭……٭٭……
٭… رات کا وقت تھا۔ مجاز کسی میخانے سے نکل کر یونیورسٹی روڈ پر ترنگ میں جھومتے ہوئے چلے جا رہے تھے۔ اسی اثنا میں اْدھر سے ایک تانگہ گزرا۔ مجاز نے اسے آواز دی، تانگہ رُک گیا۔ مجاز اس کے قریب آئے اور لہرا کر بولے: "جناب، صدر جاؤگے؟ تانگے والے نے جواب دیا: "ہاں، جاؤں گا۔” "اچھا تو جاؤ……..! ” یہ کہہ کر مجاز لڑھکتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
٭… مجاز اور فراق کے درمیان کافی سنجیدگی سے گفتگو ہو رہی تھی۔ ایک دم فراق کا لہجہ بدلا اور انہوں نے ہنستے ہوئے پوچھا: "مجاز! تم نے کباب بیچنے کیوں بند کر دیے؟” "آپ کے ہاں سے گوشت آنا جو بند ہو گیا۔” مجاز نے اُسی سنجیدگی سے فوراً جواب دیا۔
٭… مجاز تنہا کافی ہاؤس میں بیٹھے تھے کہ ایک صاحب جو اُن کو جانتے نہیں تھے، اُن کے ساتھ والی کرسی پر آ بیٹھے۔ کافی کا آرڈر دے کر انہوں نے اپنی کن سُری آواز میں گنگنانا شروع کیا: "احمقوں کی کمی نہیں غالبؔ، ایک ڈھونڈو، ہزار ملتے ہیں۔” مجاز نے اُن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: "ڈھونڈنے کی نوبت ہی کہاں آتی ہے حضرت! خود بخود تشریف لے آتے ہیں۔”
٭… کسی مشاعرے میں مجاز اپنی غزل پڑھ رہے تھے۔ محفل پورے رنگ پر تھی اور سامعین خاموشی کے ساتھ کلام سُن رہے تھے کہ اتنے میں کسی خاتون کی گود میں ان کا شیرخوار بچہ زور زور سے رونے لگا۔ مجاز نے اپنی غزل کا شعر ادھورا چھوڑتے ہوئے حیران ہو کر پوچھا: "بھئی! یہ نقشِ فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا؟”
٭… کسی صاحب نے ایک بار مجاز سے پوچھا: "کیوں صاحب! آپ کے والدین آپ کی رِندانہ بے اعتدالیوں پر کچھ اعتراض نہیں کرتے؟” مجاز نے کہا: "جی نہیں۔” پوچھنے والے نے کہا: "کیوں؟” مجاز نے کہا: "لوگوں کی اولاد سعادت مند ہوتی ہے، مگر میرے والدین سعادت مند ہیں۔‘‘
……جوش ملیح آبادی……
٭… عبدالحمید عدمؔ کو کسی صاحب نے ایک بار جوشؔ سے ملایا اور کہا: "یہ عدم ہیں۔ ” عدم کافی جسامت والے آدمی تھے۔ جوشؔ نے ان کے ڈیل ڈول کو بغور دیکھا اور کہنے لگے: "عدمؔ یہ ہے تو وجود کیا ہوگا؟‘‘
٭… جوش نے پاکستان میں ایک بہت بڑے وزیر کو اُردو میں خط لکھا، لیکن اس کا جواب انہوں نے انگریزی میں دیا۔ جواب میں جوشؔ نے انہیں لکھا: "جنابِ والا، مَیں نے تو آپ کو اپنی مادری زبان میں خط لکھا تھا، لیکن آپ نے اس کا جواب اپنی پدری زبان میں تحریر فرمایا ہے۔”
٭… ایک مولانا کے جوشؔ صاحب کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔ کئی روز کی غیر حاضری کے بعد ملنے آئے، تو جوشؔ صاحب نے وجہ پوچھی۔ کہنے لگے: "کیا بتاؤں جوشؔ صاحب، پہلے ایک گردے میں پتھری تھی، اس کا آپریشن ہوا۔ اب دوسرے گردے میں پتھری ہے۔ میں سمجھ گیا۔” (جوشؔ صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا) "اللہ تعالیٰ آپ کو اندر سے سنگسار کر رہا ہے۔”
٭… کسی مشاعرے میں ایک "نو مشق شاعر” اپنا غیر موزوں کلام پڑھ رہے تھے۔ اکثر شعرا آدابِ محفل کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاموش تھے لیکن جوشؔ صاحب پورے جوش و خروش سے ایک ایک مصرعے پر داد و تحسین کی بارش کیے جا رہے تھے۔ گوپی ناتھ امنؔ نے ٹوکتے ہوئے پوچھا: "قبلہ، یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟” جوشؔ صاحب نے بہت سنجیدگی سے جواب دیا: "منافقت۔” اور پھر داد دینے میں مصروف ہوگئے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔
خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔
ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہے آپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی