• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرپور خاص میں زرداری، زلف بنگال، صوف، کومل، انمول جیسے منفرد ناموں والے آموں کی نمائش


ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی سندھ کے شہر میرپورخاص میں پھلوں کے بادشاہ ’آم‘ کی تین روزہ نمائش کا انعقاد کیا گیا جس میں آموں کے شوقین افراد نے اپنی فیملیز کے ہمراہ بڑی تعداد میں شرکت کی۔

شہید بینظیر بھٹو نمائش ہال میں لگے 55 ویں مینگو فیسٹیول میں میرپورخاص کے علاوہ ٹنڈو الہیار، حیدرآباد، نوابشاہ، مٹیاری، نوشہروفیروز سمیت دیگر شہروں کے کاشتکاروں نے 200 سے زائد اقسام کے آم نمائش کے لیے پیش کیے۔

اس فیسٹیول میں سندھڑی، سرولی، لنگڑا، دھسیڑی، طوطا پوری، زرداری، زلف بنگال، صوف، کومل، انمول، کریلہ، جھرکی (چڑیہ)، رتام، پگارو، انور رٹول، کوئل، سندھ پہلوان، کونج، لال بادشاہ، دیسی گلاب نمائش کے لیے رکھے گئے۔

مینگو فیسٹیول میں شہریوں کو تفریح فراہم کرنے کے ساتھ عوام اور کاشتکاروں کی معلومات کے لیے بھی خاص انتظامات کیے گئے۔

اس موقع پر جنگ نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین مینگو فیسٹیول عمر بگھیو کا کہنا تھا کہ پاکستان کا آم اپنے خاص ذائقے اور مٹھاس کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔

عمر بگھیو نے تاریخی حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ میرپورخاص میں انگریزوں نے 1907 میں ایگریکلچر لیب بنائی تھی جہاں سے آم کی فارمنگ کے تجربات کیے گئے اور پھر اسے دوسرے شہروں تک پھیلایا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ میرپورخاص میں 200 سے زائد اقسام کے آم کی کاشت کی جاتی ہے لیکن ان میں سے 10 سے 15 ایسی اقسام ہیں جنہیں تجارتی پیمانے پر اگایا جاتا ہے جس میں سندھڑی، چونسہ، لنگڑا، دسہری، انور رٹول شامل ہیں، سندھڑی آم میٹھا اور رسیلا ہونے کی وجہ سے اس کا شمار دنیا کے بہترین آموں میں ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرپورخاص سے آم ملک بھر  میں اور ایران، افغانستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی برآمد کیا جاتا ہے۔

زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک دہائی قبل اس علاقے میں 60 ہزار ہیکٹر کے رقبے پر آم کے باغات پھیلے ہوئے تھے لیکن موسمیاتی تبدیلی، پانی کی عدم دستیابی اور انتظامیہ کے عدم تعاون کی وجہ سے اب باغات 10 ہزار ہیکٹر سے بھی کم رہ گئے ہیں جس سے کاشتکاروں سمیت ملک کی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، حکومت کو آم کی پیدوار بڑھانے کے لیے ضروری اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

خاص رپورٹ سے مزید