• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشی اہداف حاصل نہ ہوسکے، شرح ترقی 0.29، مہنگائی 29.9 فیصد رہی، مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 4.6 فیصد ریکارڈ، اقتصادی سروے

اسلام آباد ( نمائندہ جنگ) وفاقی حکومت نے رواں مالی سال 2022-23ء کا اقتصادی سروے جاری کر دیا جس کے مطابق روان مالی سال معاشی اہداف حاصل نہ ہوسکے ، شرح ترقی 0.29، مہنگائی 29.9 فیصد رہی، رواں مالی سال کے پہلے 10ماہ کے دوران مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 4.6 فیصد ریکارڈ کیا گیا ، فی کس آمدنی کم، ایک ہزار 568 ڈالر رہی ، ملکی معیشت سکڑ کر 341؍ ارب ڈالر رہ گئی ، قرضوں پر سود کی ادائیگی میں 69.1 فیصد اضافہ ہوا ، درآمدات میں 29.2فیصد اور برآمدات میں 12.1فیصد ، ترسیلات زر میں 13فیصد اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 23.2فیصد کمی ، سیاسی عدم استحکام کےباعث معاشی ترقی تنزلی کا شکار رہی ۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ انتخابات کے بعد نئی حکومت کرے گی ، اس وقت مذاکرات شروع کرنا غیر جمہوری اور غیر منصفانہ ہوگا، پلان B بھی موجود ہے ، 2018ء میں حکومتی قرض 25؍ کھرب تھا جو پی ٹی آئی کے چار میں بڑھ کر 49.2؍ کھرب ہوگیا ، پی ٹی آئی دور میں ملکی قرضوں میں تقریباً 97؍ فیصد کا اضافہ ہوا، پی ٹی آئی کے دور میں مجموعی قرضہ اور ادائیگیاں 100فیصد اضافے کے ساتھ 59.8؍ کھرب پر پہنچیں ، تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف سے طے شرائط پر عمل نہیں کیا اور اس کے برعکس کام کئے جس سے پاکستان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ۔ تفصیلات کے مطابق جمعرات کو وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نےاقتصادی سروے کا اجراکیا، اس موقع پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال ، وفاقی وزیر صنعت مخدوم مرتضیٰ محمود، وزیر مملکت خزانہ عائشہ غوث پاشا، وزیراعظم کے معاون خصوصی خزانہ طارق باجوہ ، وزیراعظم کے معاون خصوصی ریونیو طارق پاشا، سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال اور دیگر ان کے ہمراہ تھے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نےایک سوال کے جواب میں یقین دہانی کرائی کی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میںا ضافہ کیا جائے گا، وزیرخزانہ نےکہاکہ آئی ایم ایف پروگرام بحال نہ ہواتو پلان بی موجود ہے، 30جون کو آئی ایم ایف کا پروگرام ختم ہورہا ہے ، آئی ایم ایف پروگرام میں توسیع کا فیصلہ آئندہ حکومت کرے گی، ہماری خواہش ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ نویں جائزہ مذاکرات پر معاہدہ ہو جائے، نواں جائزہ ہماری ضرورت ہے ہم نے اس کےتحت آئی ایم ایف کی تمام شرائط پر عملدرآمد کیا ہے۔ مالیاتی خسارہ کے تناسب سے سال 2018میں 5.8 فیصد سے بڑھ کر 2022 میں 7.9 فیصد پر پہنچ گیا تھا۔مالی سال 2018 میں تجارتی خسارہ30.9 ارب ڈالر تھا جو بڑھ کر 39.1 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 4.7 فیصد یعنی 17.5 ارب ڈالر تک بڑھ گیا تھا۔ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری 2.8 ارب ڈالر سے کم ہو کر 1.9 ارب ڈالر پر آگئی۔ ایف بی آر کے محصولات 9.8 فیصد سے کم ہو کر جی ڈی پی کے 9.2 فیصد پر آگئے ۔شرح سود 6.5 فیصد سے بڑھ کر 13.75فیصد پر پہنچ گئی تھی۔گردشی قرضہ 1148 ارب روپے سے بڑھ کر 2467 ارب روپے پر پہنچ چکا تھا۔ سرکاری قرضے 63.7 فیصد سے بڑھ کر جی ڈی پی کے تناسب سے 73.9 فیصد پر پہنچ چکا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جولائی تا مئی مالی سال 2023 کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ٹیکس ریونیو میں 16.1 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اور یہ گزشتہ مالی سال کے 5,348.2 ارب روپے کے مقابلے میں 6210 ارب روپے ریکارڈ ہوئے۔ مختلف ٹیکس پالیسیوں میں بہتری اور انتظامی اصلاحات حکومتی محصولات بڑھانے میں معاون ثابت ہوئیں۔ ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانے کے لئے علاقائی دفاتر میں نئے ٹیکس دہندگان کے لئے خصوصی اقدامات کئے گئےجس کی وجہ سے ایف بی آر نے رواں مالی سال کے پہلے 9ماہ میں 7 لاکھ ٹیکس دہندگان کے ہدف کے مقابلے میں تقریباً 9 لاکھ 12 ہزار نئے ٹیکس دہندگان کو رجسٹر ڈ کیا ہے، رواں مالی سال کے پہلے 10ماہ کے دوران مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 4.6 فیصد ریکارڈ کیا گیا جو کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے دوران 4.9 فیصد تھا۔رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ کے دوران پرائمری بیلنس 99 ارب روپے سرپلس رہا جو کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 890 ارب روپے خسارے میں تھا۔ جولائی تا اپریل 2023 کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ میں 76 فیصد کمی ہوئی اور یہ کم ہو کر 3.3 ارب ڈالر پر آ گیا جو گذشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران 13.7 ارب ڈالر تھا،جولائی تا مئی 2023 کے دوران تجارتی خسارہ 40.4فیصد کی کمی کے ساتھ 25.8 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا جو کہ گذشتہ مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں 43.4 ارب ڈالر تھا۔ جولائی تا مئی موجودہ مالی سال 2023 کے دوران درآمدات میں 29.2 فیصد کی کمی ہوئی اور یہ گذشتہ مالی سال کے پہلے 11 ماہ کے دوران 72.3 ارب ڈالر کے مقابلے میں مقابلے میں کم ہو کر 51.2 ارب ڈالر پر آگئیں، جولائی تا مئی موجودہ مالی سال 2023 کے دوران برآمدات میں 12.1 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی اور یہ گزشتہ مالی سال کے 28.9 ارب ڈالر سے کم ہو کر 25.4 ارب ڈالر پر آ گئیں۔ رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ کے دوران ترسیلات زر 13 فیصد کمی کے ساتھ 22.7 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئیں جو کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 26.1 ارب ڈالر تھیں۔ جولائی تا اپریل موجودہ مالی سال 2023کے دوران غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری میں 23.2 فیصد کی کمی ہوئی اور یہ کم ہو کر 1170.1 ملین ڈالر پر آ گئی۔ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے دوران براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 1533.7 ملین ڈالر ریکارڈ ہوئی تھی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بڑا سیاسی نقصان کی لیکن ریاست کو نقصان نہیں ہونے دیا اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا ، انہوں نے کہا کہ ایل سی کی 90فیصد مشکلات حل ہو چکی ہیں ۔ وزیرخزانہ نےکہا کہ سوالوں کے جواب میں کہا کہ ہم نے مجبوری میں بجلی ، گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا ، گزشتہ تین ہفتوں میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کی ، ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی کمی ہونی چاہیے ، کرائے کم نہ ہوں تو عوام بائیکاٹ کریں ، الیکشن کے بعد چارٹر آف اکانومی ہونا چاہئے ، آئندہ الیکشن کےلیے بجٹ میں 42ارب روپے مختص کریں گے ، پانچ ارب روپے پہلے ہی جاری کر چکے ہیں ۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ گزشتہ ایک سال میں عالمی سطح پرجی ڈی پی کی شرح میں 50 فیصدکمی ہوئی ہے، اسی طرح عالمی سطح پرمہنگائی کی شرح میں 51فیصداضافہ ہوا، عالمی تجارت میں تقریباً 5 فیصدکی کمی ہوئی، جس کے اثرات سے پاکستان بھی متاثرہواہے، اس کے ساتھ گزشتہ سال آنیوالے تاریخ کے بدترین سے پاکستان کوتقریباً30 ارب ڈالرکانقصان ہواہے، حکومت سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تعمیرنو اوربحالی کیلئے کام کررہی ہے، ابتدائی طورپر4 برسوں میں 15 ارب ڈالرکا تخمینہ ہے جس میں آدھا حصہ پاکستان کی حکومت اورباقی کے فنڈز ممالک اوردوطرفہ اورکثیرالجہتی شراکت دار فراہم کریں گے۔ وزیرخزانہ نے کہاکہ حکومت نے جاری مالی سال میں کفایت شعاری کے اقدامات کئے، غیرہدفی زرتلافیوں کوختم کیاگیا، تمام بیرونی واجبات اورذمہ داریوں کی وقت پرادائیگی کویقینی بنایاگیا، درآمدات میں اشیاء خوراک اور ادوایات کوترجیح دی گئی، اس کے ساتھ ساتھ برآمدات پربھی بھرپورتوجہ دی گئی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ درآمدات میں کمی کے باوجود جاری مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں ایف بی آر نے 6210 ارب روپے کے محاصل اکھٹا کئے جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلہ میں 16 فیصد زیادہ ہے، نئے مالی سال میں ایف بی آر میں اصلاحات اوربہتری کا عمل جاری رہے گا، ٹیکس کی بنیادمیں وسعت لائی جائے گی، 31مارچ تک ایف بی آر نے 7لاکھ نئے ٹیکس دہندگان کا ہدف مقررکیاتھا جو9 لاکھ 12ہزار 392 تک پہنچ گیاہے، پرائمری بیلنس میں بھی بہتری آئی ہے۔ ایک سوال پرانہوں نے کہاکہ ہماری پوری کوشش ہوگی کہ سرکاری ملازمین اورپنشنرز کی تنخواہوں میں گنجائش کے مطابق اضافہ کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ میثاق معیشت پربات چیت انتخابات کے بعد ہوں گی۔

اہم خبریں سے مزید