• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رفعت جہاں

ایک کسان اپنے بیلوں کے لئے گھاس کاٹ رہا تھا۔ جب دوپہر ہوئی تو وہ ایک جھاڑی کے پاس آکر بیٹھ گیا اور روٹی نکال کر کھانے لگا۔ ابھی اس نے کھانا شروع ہی کیا تھا کہ ایک بھیڑیا آگیا اور بڑی عاجزی کے ساتھ کسان سے بولا، ’’بھیّا کسان! کیا کھا رہے ہو؟‘‘

’’روٹی!‘‘ کسان نے جواب دیا۔

’’کیسی ہوتی ہے روٹی؟‘‘ بھیڑیے نے پوچھا۔ ’’بڑے مزے کی۔‘‘ کسان نے روٹی کا مزہ لیتے ہوئے جواب دیا۔ ’’تب تو مجھے بھی چکھاؤ۔‘‘

’’ضرور چکھو۔‘‘ کسان نے یہ کہہ کر ایک روٹی بھیڑیے کو دے دی۔

روٹی کھا کر بھیڑیے کو بڑا مزہ آیا۔ ہونٹ چاٹتے ہوئے بولا، ’’سچ مچ بڑے مزے کی ہے روٹی! ذرا مجھے بھی بتاؤ، یہ کیسے مل سکتی ہے؟

کسان نے کہا، ’’ مَیں بتاتا ہوں کہ روٹی کیسے ملتی ہے۔ پہلے تمہیں زمین ہل چلاناپڑے گا،

’’پھر مل جائے گی مجھے روٹی؟‘‘ بھیڑیے نے درمیان میں ٹوکتے ہوئے کہا۔

کسان نے کہا، ’’صبر کرو ، صبر ۔ ابھی روٹی کہاں، جب زمین پر اچھی طرح ہل چلا لوگے تو ۔‘‘

’’اچھا تواس کے بعدروٹی مل جائے گی؟‘‘ بھیڑیے نے خوشی سے دُم ہلاتے ہوئے کہا۔

کسان اُس کے پھر ٹوکنے پر چڑ گیا اور بولا، ’’پہلے پوری بات تو کہہ لینے دو۔ ابھی تو تم کو گیہوں بونا پڑے گا۔‘‘

’’تب تو روٹی مل جائے گی؟‘‘ بھیڑیے نے ہونٹ چاٹتے ہوئے پوچھا۔

’’ابھی کہاں، ابھی تو فصل کا انتظار کرنا پڑے گا۔ جب فصل پک کر تیار ہوگی۔‘‘ ’’افوہ!‘‘ بھیڑیے نے ٹھنڈی سانس بھری، ’’ لیکن اِس کے بعد تو خوب روٹی ملے گی۔‘‘

’’ابھی کہاں،‘‘ کسان نے اُس کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا، ’’پہلے فصل کاٹنی ہوگی۔ اس کے بعد گٹھے بنانے ہوں گے۔ پھر انہیں دھوپ میں سکھائیں گے۔

’’تب تو روٹی مل جائے گی؟‘‘ بھیڑیے نے پریشان ہو کر کہا۔

کسان نے کہا، ’’بڑے بے صبر ےہو۔ اتنی دیر سے یہی رٹ لگا رکھی ہے۔ پھراناج کو بوروں میں بھرا جائے گا۔ پھر چکی پر لے جانا پڑے گا۔ جس میں اناج پسے گا ،تب کہیں آٹا بنے گا۔‘‘

’’بس اب تو روٹی مل جائے گی؟ بڑا انتظار کرنا پڑتا ہے روٹی کے لئے۔‘‘بھیڑیے نے کہا ابھی تو آٹا گوندھنا پڑے گا۔ پھر گرم چولہے پر روٹی پکانی پڑے گی۔‘‘ کسان نے کہا۔ ’’پھر تیار ہو جائی گی روٹی؟‘‘ بھیڑیا بولا۔

’’ہاں اب جا کر روٹی تیار ہوئی۔ اب تم اطمینان سے روٹی کھا سکو گے۔‘‘ بھیڑیا سوچ میں پڑ گیا اور پنجے سے سر کھجاتے ہوئے بولا، ’’بھئی یہ تو بڑا مشکل کام ہے۔ ایک روٹی کے لئے اتنی محنت! مجھے تو کوئی آسان سی ترکیب بتاؤ۔‘‘

کسان نے کہا، ’’ اگر تم محنت کرنا نہیں چاہتے اور مفت کی روٹی کھانا چاہتے ہو تو اس کا بھی طریقہ بتا دیتا ہوں۔‘‘

وہاں ایک گھوڑا گھاس چر رہا ہے اُس کو....‘‘

ابھی کسان نے اپنی بات پوری بھی نہیں کی تھی کہ بھیڑیا بھاگتا ہوا گھوڑے کے پاس پہنچا اور بولا، ’’گھوڑے گھوڑے! مَیں تمھیں کھانا چاہتا ہوں۔‘‘ گھوڑا بولا، ’’ ضرور کھا لو لیکن پہلے میرے سموں سے نعل نکال دو، یہ لوہے کے ہیں۔ تمہارے منہ میں گڑ جائیں گے۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔‘‘ بھیڑیے نے کہا۔

بھیڑیا نعل نکالنے کے لئے جیسے ہی آگے بڑھا گھوڑے نے ایسی دولتی جھاڑی کہ وہ دور جا گرا اور چلّاتا ہوا وہاں سےبھاگا۔

بھیڑیا دریا کے کنارے پہنچا ،جہاں مرغابیاں تھیں۔ انہیں دیکھ کر اس کہ منہ میں پانی آگیا۔ اُن کے پاس جا کر اُس نے کہا، ’’مَیں تمہیں کھانا چاہتا ہوں۔‘‘

’’بڑی خوشی سے کھاؤ، مگر شرط یہ ہے کہ پہلے ہمیں ایک گانا سنا دو‘‘۔

بھیڑیا ایک ٹیلے پر جا بیٹھا اور سر اوپر اٹھا کر گانے لگا۔ اُدھر مرغابیاں موقع پاتے ہی اڑ گئیں۔

بھیڑیا اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ اب کسی سے ملوں گا تو ایسی بیوقوفی نہیں کروں گا۔ چلتے چلتے وہ دور نکل گیا تو اُسے بھیڑوں کا ایک ریوڑ نظر آیا۔ چرواہا سو رہا تھا۔ بھیڑیے نے سب سے موٹی بھیڑ کو پکڑ لیا اور بولا، ’’مَیں تمہیں کھانا چاہتا ہوں۔‘‘

’’اچھا!‘‘ لیکن مَیں چاہتی ہوں کہ میری ہڈیوں سے تمہارے دانت نہ ٹوٹیں۔ ایسا کرو، تم یہاں منہ کھول کر کھڑے ہو جاؤ میں اوپر سے تمہارے منہ میں کود پڑتی ہوں۔‘‘

بھیڑیا منہ پھاڑ کر کھڑا ہوگیا۔ بھیڑ پہاڑی پر چڑھ گئی۔ وہ دوڑتی ہوئی آئی اور اس نے اِس زور سے بھیڑیے کے سر پر ٹکر ماری کہ وہ بے ہوش ہو کر گِر پڑا۔

جب اُسے ہوش آیا تو وہ خون میں لت پت تھا، گھبرا کر بولا، ’’بھیڑ بھی ہاتھ سے گئی، اب کیا کروں،اتنے میں وہ کسان وہاں سے گزرا جس نے بھیڑیے کو روٹی کے بارے میں بتایا تھا۔ بھیڑیے کی حالت دیکھ کر اُس نے کہا،اب’’ تمہیں یہ تو معلوم ہوگیا کہ مفت کی روٹی کیسی ہوتی ہے۔‘‘