پاکستان فٹ بال فیڈریشن نارملائزیشن کمیٹی کی فوری برطرفی کے لئے احتجاجی تحریک کا آغاز کردیا گیا ہے۔ 2015ء میں پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے انتخابات کے موقع پر فیڈریشن پر قبضے کی جو محاز آرائی شروع ہوئی تھی وہ آج تک ختم نہیں ہوسکی، قومی فٹ بال کےکرتا دھرتائوں کو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا البتہ فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا کی مداخلت کے بعد 2019 میں حمزہ خان کی چیئرمین شپ میں پی ایف ایف نارملائزیشن کمیٹی کا اعلان کیا گیا۔
گزشتہ چار سال میں تین بار تبدیل ہونے والے نارملائزیشن کمیٹی کے اراکین کو اس کا خوب فائدہ ہوا۔ پہلی کمیٹی اور اس کے بعد تعینات ہونے والی کمیٹی کے اراکین بھی فیفا کی جانب سے دیئے گئے ٹائم فریم میں پاکستان فٹ بال کے انتخابات کا کام مکمل نہیں کرسکے۔ قومی فٹ بال کا گزشتہ آٹھ سالوں میں جو نقصان ہوا ہے اس کا اندازہ ایک عام آدمی کو تو نہیں ہوسکتا لیکن قومی فٹ بال کے لورز، آرگنائزرز اور کھلاڑیوں کو ضرور ہوا۔ قومی فٹ بال ٹیم کی طویل عرصے تک قیادت کرنے والے عیسی خان سمیت سابق عالمی شہرت یافتہ کھلاڑیوں، سندھ فٹ بال ایسو سی ایشن اور بلوچستان فٹ بال ایسو سی ایشن کے سابق عہدیدار اب قومی فٹ بال میں بہتری لانے کیلئے متحد اور منظم ہوچکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے پر ہم نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس اور مظاہرہ کرکےاپنے ایک نکاتی مطالبے نارملائزیشن کمیٹی کو توسیع مت دو کا اعلان کردیا اس کے ساتھ ساتھ ان کا کہنا تھا کہ اب پاکستان فٹ بال کی بحالی کی جو تحریک چلی ہے اس کو منطقی انجام تک پہچانے کیلئے فیفا فٹ بال ہائوس لاہور پر قبضہ کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔
واضح رہے کہ مارچ 2021ء کو پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے سابق صدر اشفاق حسین شاہ اور ان کے ساتھیوں نے بھی فٹ بال کے معاملات حل نہ ہونے پر فیفا نارملائزیشن کمیٹی کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن کرتے ہوئے فیفا فٹ بال ہاؤس پر قبضہ کرلیا جس کو بعد میں گزشتہ حکومت نے ختم کرا کے فٹ بال ہائوس کا چارج ہارون ملک کی سربراہی میں کام کرنے والی موجودہ نارملائزیشن کمیٹی کے حوالے کردیا تھا۔ اشفاق حسین شاہ کا بھی یہی کہنا تھاکہ ہم نے نارملائزیشن کمیٹی کو دو سال تک کام کرنے دیا،جب دیکھا کہ نارملائزیشن کمیٹی صرف اور صرف وقت ضائع کررہی تو ہم نے فٹ بال ہائوس کا قبضہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور فیفا اور اے ایف سی سے درخواست کی کہ وہ پاکستان فٹ بال کا مسئلہ حل کرنے کیلئے ہم سے بات کرے۔ این سی الیکشن کا کوئی روڈ میپ نہیں دے سکی۔
ان کا کہنا تھاکہ اشفاق شاہ سپریم کورٹ کے حکم پر پی ایف ایف کا صدر بنا ہےاور فٹ بال ہائوس پر ہمارا قبضہ ہمارا حق ہے۔آج بالکل یہی بات سابق عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی، سندھ اور بلوچستان فٹ بال ایسو سی ایشن کے عہدیدار کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ پاکستان میں 2015ء سےفٹ بال کے معاملات تنازعات کا شکار چلے آرہے ہیں جس کے حل کیلئے فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا نے پی ایف یف کے انتخابات کا عمل مکمل کرنے کیلئے ہارون ملک کی سربراہی میں جنوری 2021ء میں نارملائزیشن کمیٹی تشکیل دی اس کی بنیادی ذمہ داری تین ماہ کے اندر فٹ بال کےانتخابات کو یقینی بنانا تھا، رواں سال جب ملک کے فٹ بال حلقوں کی جانب سے جلد از جلد انتخابات کرانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا تو این سی کے چیئرمین ہارون ملک نےرواں سال 15 مئی تک پاکستان کے تمام اضلاع میں انتخابات کر انے کا اعلان کیا جس کی وجہ سے فٹ بال کے حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی لیکن یہ اعلان محض ایک اعلان ہی ثابت ہوا اور گزشتہ دنوں چیئرمین این سی نے برملا طور پر یہ اعلان کیا ہے کہ وہ جون 2024ء تک پاکستان فٹ بال فیڈریشن کو اس کے صحیح مقام تک پہنچا دیں گے۔ ان کے اس اعلان کے بعد فٹ بال کے حلقو ں میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ذمہ داروں کاکہنا ہے کہ این سی کو کسی صورت توسیع نہ دیں کیونکہ وہ تاخیری حربوں سے انتخا بی عمل کو طول دیکر خود کو ملنے والی بھاری تنخواہوں اور مراعات کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
سابق قومی کپتان و کوچ لالا اکبر رئیسانی، ظفر اقبال،عیسی خان، گل محمد کاکڑ، اورنگزیب شاہ میر، ناصر کریم، عبدالرحیم بلوچ اور دیگر کھلاڑی اور آرگنائزر سخت ناراض ہیں۔ جنگ سے بات چیت میں پاکستان فٹ بال ٹیمکے سابق کپتان عیسی خان نے کہا کہ این سی نے پاکستان کی ڈومیسٹک فٹ بال کا بیڑہ غرق کردیا ہے، جب ڈومیسٹک فٹبال ہی نہیں ہوگی اچھے کھلاڑی کہاں سے ملیں گے۔ پاکستان فٹ بال کےگزشتہ آٹھ سال تباہ کن ہیں اس دوران قومی فٹ بال نہیں ہوئی، ہمارے بڑے بڑے قومی ٹورنامنٹ نہیں ہوسکے جب کھلاڑیوں کو ٹورنامنٹ نہیں ملیں گے تو کارکردگی کیسے دکھا پائیں گے۔
کھلاڑیوں کی فٹنس لیول ختم ہوگیا، ہمارے بہترین فٹ بالر جو انٹرنیشنل مقابلوں میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کررہے تھے اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں اور جو نئی لاٹ تھی وہ اداروں کی ٹیمیں بند ہونے سے متاثرہوئی ہیں۔ سینکڑوں کھلاڑیوں کا مستقبل تاریک ہوگیا ہے۔ پاکستان کو کامیابی دلوانے والے کئی فٹ بالر محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پال رہے ہیں۔