میں اس وقت زمین پر موجود جنت نظیر کے ایک دلکش ٹکڑے یعنی سوات میں موجود ہوں جسے پاکستان کا سوئزرلینڈ بھی کہا جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے شمال مغرب میں واقع وادی سوات جہاں اپنی قدرتی خوبصورتی اور نظاروں کی وجہ سے پوری دنیا کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے، میری نظر میں اسکی وجہ اہمیت دو ہزار سال قدیم مذہبی تہذیب ہے۔ سوات کا سنسکرت زبان میں پرانا نام ادھیانہ تھا، جسکا مطلب باغ ہے۔ ہندو دھرم کی مقدس کتاب رگ وید میں دریائے سوات کا ذکر سواستو کے نام سے آتا ہے جس کے معنی ہیں صاف نیلے پانیوں کا دریا۔ وادی سوات ہمارے خطے کی ہزاروں سال قدیم گندھارا تہذیب کے اہم مراکز میں سے ایک ہے جہاں لنڈاکئی کے علاقے سے لیکر مالم جبہ تک گوتم بدھا کے مختلف مجسمے اور دیگر قیمتی نوادرات صدیوں سے سنگلاخ چٹانوں پر کنندہ ہیں۔ ملک میں موجود بدھ مت کی مقدس عبادت گاہوں اور گندھارا تہذیب کے باقیات کے حوالے سے آگاہی حاصل کرنے کیلئے میں نے ہفتہ وار معلوماتی سیاحتی دورے کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے سوات کی قدیم وادی کو منتخب کیا، میرے ہمراہ جرمنی اور نیپال کے ڈپلومیٹس، سول سوسائٹی، طلبہ طالبات اور میڈیا نمائندگان بھی موجود ہیں، سوات میں ہمارا پہلا پڑاؤ بری کوٹ کے آثار قدیمہ تھے، بازیرا کے اس تاریخی مقام میں گندھارا دور کی بہت سی باقیات موجود ہیں، یہ وہی مقام ہے جہاں سکندر اعظم نے خونریز جنگ لڑی تھی، ہم نے یہاں موجود قدیمی مندر کے آثار قدیمہ کا بھی دورہ کیا۔ پوری دنیا میں بدھا کے پیروکاروں کو سوات میں موجود گندھارا دورکے آثار قدیمہ اور مقدس مقامات کے ساتھ خصوصی روحانی عقیدت ہے، بدھ مت میں سوات کو پوتر دھرتی مانا جاتا ہے، ان کے عقیدے کے مطابق بدھ دھرم کا آغاز سوات کی سرزمین سے ہوا تھا،گزشتہ چند سالوں سے تھائی لینڈ، کوریا اور سری لنکا وغیرہ سے بدھ بھکشوؤں کے مختلف گروپ سوات میں موجود بدھ مت کے مقدس مقامات کی یاترہ کیلئے آنا شروع ہوگئے ہیں بدھ مت کے ماننے والوں کیلئے سوات ایک مقدس مقام ہے، آج سے ایک ہزار سال قبل تبت سے آئے ہوئے ایک بدھ مت کے راہب ارجن پا نے اپنی کتاب میں تذکرہ کیا کہ جب میں نے سوات میں واقع بت کڑہ اسٹوپا کی یاترا کی تو میں نے پانچ ہزار سے زیادہ بدھ بھکشوؤں کو ایک ساتھ مذہبی رسومات ادا کرتے دیکھا۔ سوات میں موجود ایک چٹان پر بدھا کا ایک مجسمہ کنندہ ہے جسے خطے میں بدھا کا پہاڑی چٹان پر کنندہ دوسرا بڑا مجسمہ قرار دیا جاتا ہے، اس مقام تک رسائی کیلئے کٹھن پہاڑی راستے سے گزرنا پڑتا ہے، تیرہ فٹ لمبا اور نو فٹ چوڑا قدیمی مجسمہ پتھر یلی چٹان کے عین وسط میں تراشا گیا ہے جسے دیکھنے والازمانہ قدیم میں بسنے والوں کے ہمت و حوصلے کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا،تاہم بدھا کے ماننے والے اسے ایک قدرتی بدھا قرار دیتے ہیں،ان کے مذہبی عقائد کے مطابق گوتم بدھا سوات کی ان سنگلاخ چٹانوں میں پوجا کرنے آیا کرتے تھے اور پھر ان کے جانے کے بعد یہ مجسمہ خودبخود پہاڑی چٹان پر نمودار ہو گیا، آج دنیا بھر کے ہر بدھا کی یہ دِلی خواہش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ایک مرتبہ اس مقدس مقام کی یاترا کرے، تاہم بدقسمتی سے ماضی میں کچھ شدت پسندوں نے اس مقدس مقام کوبھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ علاوہ ازیں شنگردار اسٹوپا، سوات میوزیم میں موجود بدھا کے پیروں کے نشان والا پتھراور گندھارا تہذیب سے متعلق مختلف نوادرات بھی بدھ مت کے ماننے والوں کی نظر میں نہایت متبرک ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں وقت کی کمی کے باعث سوات اور بونیر کے درمیان میں واقع ایلم پہاڑ کی چوٹی جوگیانو سر نہیں جاسکا جہاں رام تخت موجود ہے، یہ اس علاقہ کی سب سے اونچی چوٹیوں میں سے ایک ہے اور سال کا بیشتر حصہ برف سے ڈھکی رہتی ہے،پاکستان بننے سے پہلے یہاں ساوان سنگران کا تہوارمذہبی جوش و خروش سے منایا جاتا تھا جس میں شرکت کیلئے دوردراز سے ہندو کمیونٹی کے لوگ آتے تھے۔چند سال قبل سوات میں کھدائی کے دوران وشنو مندر کے آثارِقدیمہ بھی دریافت ہوئے ہیں، یہ گندھارا تہذیب کے دریافت ہونے والے ہندو دھرم کے قدیمی کھنڈرات ہیں جنہیں کم ازکم 1300 سال پرانا قرار دیاجارہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے خطے کی عظیم الشان گندھارا تہذیب اپنے اندر تاریخ کے بہت سے ادوار سموئے ہوئے ہے،وقت کی ضرورت ہے کہ ہم مذہبی سیاحت کی اہمیت کو جانتے ہوئے صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کریں اورعالمی سیاحوں بالخصوص گندھارا تہذیب سے عقیدت رکھنے والوں کیلئے اپنے دروازے کھول دیں اس نہ صرف پاکستان سیاحتی سفارتکاری کے ذریعے اپنا امیج بہتر کرسکتا ہے بلکہ غیرملکی سیاحوں کی آمد قومی معیشت کے استحکام میں بھی معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)