• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھڑی آم جو ملکہ برطانیہ کو بھی بطور تحفہ جاتے تھے


سندھڑی آم کی جب بھی بات آتی ہے تو صوبہ سندھ کے شہر میرپورخاص کا نام لیا جاتا ہے، اس شہر کو یہ مقام دلوانے میں کاچھیلو فارم کا مرکزی کردار کہیں تو غلط نہیں ہوگا۔

میرپورخاص کی تحصیل کوٹ غلام محمد میں موجود کاچھیلو فروٹ فارم ’آم‘ کے علاوہ دیگر پھلوں کی کاشت کی وجہ سے بھی مشہور ہے لیکن سندھڑی آم نے اس فارم کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایک الگ پہچان دی ہے۔

اس فارم میں آم کی کاشت اور اس کو پروان چڑھانے میں مرحوم سابق صوبائی وزیر رفیع کاچھیلو نے اہم کردار ادا کیا جہاں انہوں نے آم کی مختلف اقسام کی کاشت اور اسے عالمی مارکیٹ تک پہنچانے میں بڑی جدوجہد کی۔

رفیع کاچھیلو کی بدولت ہی سندھڑی آم حکومت پاکستان کی جانب سے ملکہ برطانیہ اور مختلف ممالک کے سربراہوں کو بطور تحفہ پیش کئے جاتے تھے۔

مرحوم رفیع کاچھیلو کے بیٹے اور کاچھیلو فارم کے مالک فیصل خان کاچھیلو کا کہنا ہے کہ ان کے فارم کے سندھڑی آم اپنے الگ ذائقے، خوشبو اور مٹھاس کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں، اس وقت ان کے فارم کے آم پاکستان بھر کی مارکیٹ میں پہنچائے جاتے ہیں۔

فیصل کاچھیلو کا کہنا ہے کہ ان کے فارم سے سندھڑی آم ملکہ برطانیہ کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے ریاستی سربراہوں کو بطور تحفہ دیے جاتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ برطانیہ میں رہائش کی وجہ سے ان کے والد کے شاہی خاندان کے کچھ افراد سے اچھے تعلقات تھے جس کے باعث انہوں نے آم بطور تحفہ دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت ان کے فارم میں آم کی کمرشل اور نان کمرشل ایک سو سے زائد اقسام موجود ہیں لیکن مقامی اور بین الا قوامی مانگ کو نظر میں رکھتے ہوئے اب کمرشل اقسام پر زیادہ فوکس کیا جاتا ہے۔

فیصل کاچھیلو کا کہنا تھا کہ سندھڑی آم اپنے سائز، خوشبو اور ذائقے کی وجہ سے لوگوں کی ہمیشہ پہلی پسند ہوتی ہے، اس کے علاوہ چونسہ اور انور رتول بھی بہت پسند کیا جاتا ہے۔

فیصل کاچھیلو نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی اور پانی کی کمی کی وجہ سے باغات ختم ہورہے ہیں اور آم کے ذائقے میں بھی فرق آیا ہے لیکن وہ اپنی محنت اور کوششوں سے باغات کے تحفظ کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومتیں اب کاشتکاروں کو آم ایکسپورٹ کرنے میں کوئی سہولیات فراہم نہیں کر رہیں جس کی وجہ سے پاکستان کا آم اور دیگر فروٹ عالمی مارکیٹ تک نہیں پہنچتا اور اسی سبب کاشتکاروں اور ملکی معیشت دونوں کو ہی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

خاص رپورٹ سے مزید