• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سلمان یوسف

اعظم صاحب ! اپنے بیٹے ارحم کو لینے کھیل کے میدان پہنچے۔ وہ روزانہ اپنے دوستوں کے ساتھ یہاں کھیلنے آتا ہے۔ آج جب اس گھر واپس آنے میں دیر ہوگئی وہ اُسے لینے پہنچ گئے تو دیکھا کہ وہ اپنے دوست عمر سے باتوں میں مصروف ہے۔ ”ارےارحم ،تم کل ا سکول کیوں نہیں آئے؟“ عمر نے پوچھا۔

”وہ دراصل۔۔۔۔۔” ارےہاں کل مجھے سردرد اور معمولی بخار تھا، جس کی وجہ سے میں اسکول حاضر نہ ہوسکا‘ آج کچھ بہتر ہوں“ اس نے جھوٹ بولا۔ اعظم صاحب کو دکھ ہوا وہ افسوس کرنے لگے کہ اُن کا بیٹا جھوٹ بول رہا ہے۔

دونوں باتوں میں اتنے مشغول تھے کہ ، انہیں خبر ہی نہ ہوئی کہ ابو دونوں کی گفتگو سن رہے ہیں۔ اچانک عمر کی نظر ان پر پڑی

” تمہارے ابو آئے ہیں۔“ارحم ابو کو سامنے پاکر بوکھلا گیا۔ ”چلو بیٹا، مغرب ہوگئی ہے گھر چلو“ اعظم صاحب بظاہر تو مسکرا کر بولے لیکن اندر ہی اندر وہ افسوس کررہے تھے اور بہت دکھی بھی تھے۔

”جی ابو! یہ کہہ کر ارحم ان کے ساتھ چل دیا۔ ”تم نے عمر سے جھوٹ کیوں کہا کہ تمہیں بخار تھا، جبکہ تم نے تو ایسے ہی چھٹی کرلی تھی۔“ راستے میں ابو نے اُس سے پوچھا”وہ۔۔۔۔ وہ ،چھوٹے موٹے جھوٹ تو آج کل کے زمانے میں چلتے ہیں۔‘‘ ارحم نے کہا

’’لیکن تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، جھوٹ بولنا بری بات ہے، آپ تو اچھے بچے ہونا،“ ابو نے مسکرا کر کہا۔

تو وہ بولا ”جی ابو میں آئندہ کبھی جھوٹ نہیں بولو گا۔“ ”بہت خوب“ ابو نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے کہا۔

ایک دن دروازے پر کسی نے دستک دی۔ ”ارحم بیٹا! جاکر دیکھو کون آیا ہے!“ابونے آواز دے کرکہا”جی ابووہ دروازہ کھولنے چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آکر اس نے بتایا کہ ’’ابو ،آپ کے دوست اکرم انکل آئےہیں۔‘‘

”اوہو،جب دیکھو پریشان کرنے چلا آتا ہے‘پتہ نہیں اور کام نہیں ہوتے اِسے‘ ۔ ابو غصے سے بول رہے تھے۔ ”ارحم آپ اُن سے کہہ دو کہ ابو ابھی دفتر سے نہیں لوٹے۔“ اعظم صاحب نے کہا۔

ارحم دروازے پر گیا اور اُس نے اپنے ابو کے دوست سے کہا کہ،’’انکل، ابو جان نے آپ کو بہت برا بھلا کہا اور یہ بھی کہا ہے کہ اُن سے جاکر کہہ دو کہ میں دفتر سے نہیں لوٹا‘ معلوم نہیں اُنہوں نے جھوٹ کیوں بولا‘ ویسے وہ مجھے جھوٹ بولنے سے منع کرتے ہیں۔“ ارحم نے اداسی سے کہا۔

اکرم کو جھٹکا لگا اور حیران ہو کرکہا’’کیا؟ تمھارے ابو نے مجھے برا بھلاکہا اور جھوٹ بولا مجھے اُس سے یہ اُمیدہرگز نہیں تھی‘‘۔ اکرم غصے سے چلا گیا اور ارحم اپنے دماغ میں کئی سوال لئے گھر میں آگیا۔

رات کاکھانا کھانے کے بعد اعظم صاحب کے موبائل پر گھنٹی بجی، اُنہوں نے دیکھا تواکرم کا فون تھا ۔اُنہوں نے کال ریسونہ کی ،مگر گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ آخر تنگ آکر انہوں نے کال ریسوکی اور فون کان سے لگا کر ”ہیلو“ کہا۔

دوسری جانب اکرم کی افسوس اور دکھ بھری آواز آئی،“ اعظم تم سے یہ امیدنہیں تھی تم نے مجھے برا بھلا کہا‘تمہارے بیٹے نے مجھے سب بتا دیا۔ اصل بات تو یہ ہے کہ تم دوستی کے لائق ہی نہیں ہو،تم ایک نمبر کے جھوٹے انسان ہو۔ آج کے بعد ہماری دوستی ختم ‘‘۔اتنا کہہ کراکرم نے فون بند کردیا۔

اعظم صاحب کوارحم پر غصہ آیا‘ انہوں نے اُسے بلایا اور ڈانٹتے ہوئے کہا، ”تم نےاکرم کو ہر وہ بات بتادی جو میں نے اس کے بارے میں کہی تھی۔“ ”ابو،آپ بھول گئے؟“ جواب دینے کی بجائے اُس نے اُلٹا سوال کیا۔’’ کیا‘‘؟’’ ابوآپ پرسوں والی بات بھول گئے، جب میں نے اپنے دوست سے جھوٹ بولا تو آپ نے مجھے نصیحت کی کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہیے لیکن آپ وہ نصیحت بھول گئے‘ آپ نے مجھے تو جھوٹ بولنے سے روکا تھا ،مگر خود آپ نے اپنے دوست سے جھوٹ بولا اور مجھ سے بھی کہا کہ اُن سے جھوٹ بول دوں کہ آپ ابھی دفتر سے نہیں لوٹے‘ جس دن آپ نے مجھے جھوٹ بولنے سے روکا تھا، اسی دن سے میں جھوٹ سے نفرت کرتا ہوں اور سچ کا بولتاہوں‘ اِس لیے میں نےاکرم انکل سے سب کچھ سچ کہہ ڈالا۔‘‘

ارحم نےمعصومیت سے کہا کہ ابو کو اُس پر بے ساختہ پیار آگیا۔”بیٹے!تم نے سچ کہا، آج سے میرا بھی پکا وعدہ ہے کہ میں کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔‘‘ ”ابوہم کل جا کر اکرم انکل کو منائیں گے اور اُن سے معافی مانگیں گے۔‘‘

’’ ٹھیک ہے۔“ یہ کہتے ہوئے انہوں نےارحم کو گلے سے لگا لیا۔