فارسی میں ایک لفظ ہے اندازہ۔ اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے اور مفہوم ہے تخمینہ، قیاس، اٹکل۔ جب کوئی بات ٹھیک ٹھیک معلوم نہ ہوتو کہتے ہیں کہ’’ اندازہ ہے کہ ۔۔۔‘‘اور مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ تعدا دیا مقدار وغیرہ جو بتائی جارہی ہے وہ اس کے قریب قریب ہے اورشاید سو فی صد درست نہیں ہوگی۔ اسی لفظ اندازہ سے اردو والوں نے ایک لفظ بنالیا اندازاً۔ مراد ہے تخمیناً، اندازے سے۔
یہاں یہ وضاحت کردی جائے کہ عربی میں لفظ کے آخر میں الف کے اوپر دو زبر یا دو زیر یا دو پیش لگا کر نون کی آواز پیدا کی جاتی ہے اور اسے تنوین کہتے ہیں۔ رشید حسن خاں کے مطابق اردو میں عام طور دو زبر والی تنوین استعمال ہوتی ہے اور زیر والی تنوین یا پیش والی تنوین اردو کے چند ہی الفاظ یا مرکبات میں ملتی ہے۔ تنوین میں ایک طریقہ یہ ہے کہ لفظ کے آخر میں الف کا اضافہ کرکے اس پر دو زبر لگائے جاتے ہیں ، جیسے :مجبور سے مجبوراً، اتفاق سے اتفاقاً، یقین سے یقینا، فور سے فوراً،عموم سے عموماً، وغیرہ۔دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ لفظ کے آخر میں’’ہ‘‘ یا ’’ۃ‘‘ ہو تو ’’ۃ‘‘ پر ہی تنوین لگادی جاتی ہے لیکن اردو میں بعض ایسے عربی الفاظ کے آخر میں بھی الف کا اضافہ کرکے تنوین لگائی جاتی ہے جن کے آخر میں ’’ۃ‘‘ یا ’’ہ‘‘ ہے، مثلاً نتیجہ، عادت اور نسبت میں۔
ان الفاظ میں تنوین اصولا ًاس طرح لگے گی کہ آخری حرف کو ’’ۃ‘‘ بنا کر اس پر دو زبر لگیں گے ، یعنی تنوین لگنے کے بعد ان کا املا ہوگا : نتیجۃً ، عادۃًاور نسبۃً۔ لیکن اردو میں ان الفاظ کو نتیجتاً ، عادتاًاور نسبتاً بھی لکھا جاتا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ان الفاظ اور بعض دیگر الفاظ کا اب یہی املا اردو میں رائج ہوگیا ہے، یعنی الف کے ساتھ اور رشید حسن خاں صاحب بھی اس کے حامی تھے۔ خیر اس بحث کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں اور فی الحال اندازاًکی بات کرتے ہیں۔
بعض ثقہ حضرات کے نزدیک اندازاً لکھنا اور بولنا غلط ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ تنوین عربی الفاظ پر آتی ہے ۔جبکہ اندازہ فارسی کا لفظ ہے لہٰذا اس پر تنوین لگا کر’’اندازے سے ‘‘ کے مفہوم میں اندازاً لکھنا غلط ہے۔ مثلاً ’’قاموس الاغلاط ‘‘ میں لکھا ہے ـ :’’اندازاً غلط ہے۔ عربی مَداں (یعنی عربی نہ جاننے والے)اصحاب نے اندازہ سے اندازاً بنالیا ہے۔ اس کی جگہ تخمیناًکا لفظ موجود ہے جو صحیح ہے۔اندازاً کی طرح نمونۃً بھی کہتے اور لکھتے ہیں۔ تنوین عربی الفاظ پر آتی ہے نہ کہ فارسی الفاظ پر‘‘۔
گویایک نہ شد دو شد ! اندازاً تو اپنی جگہ، یہاں تو ایک اور لفظ نمونۃً پر بھی اعتراض ہوگیا کیونکہ نمونہ بھی اندازہ کی طرح فارسی کا لفظ ہے۔ لیکن بعض اہل علم جو اردو زبان کے مزاج سے واقف ہیں اور اردو میں عام رواج پا جا نے والے الفاظ کو درست سمجھتے ہیں انھوں نے اندازاً اور نمونۃًیا نمونتاً کو درست قرار دیا ہے، مثلاً فرمان فتح پوری اور احسان دانش۔
فرمان صاحب نے اپنی کتاب اردو املا اور رسم الخط میں لکھا ہے ’’غیر عربی الفاظ پر تنوین نہیں آتی لیکن اردو میں ایک دو لفظ تنوین کے ساتھ مستعمل ہوگئے ہیں ،جیسے اندازاً ، نمونتاً۔انھیں’’ غلط العام فصیح ‘‘ کے تحت درست کہا جائے گا۔ لیکن اس قیاس پر دوسرے ہندی یا فارسی لفظوں پر تنوین کا استعمال غلط ہوگا‘‘۔
احسان دانش نے بھی لغات الاصلاح میں لکھا ہے ’’اندازاً: چونکہ انداز فارسی ہے اور تنوین عربی کا خاصہ ہے اس لیے اس کی جگہ تخمیناً یا اندازہ کہنا چاہیے مگر اردو میں غلط العام ہوگیا ہے اور فصحا بولتے ہیں۔‘‘
لیجیے صاحب جھگڑا طے ہوگیا۔ ’’انداز اً ‘‘اصولاً درست نہ ہونے کے باوجود چونکہ رائج ہے اور غلط العام فصیح کے ذیل میں ہے اور فصحا بھی بولتے ہیں لہٰذا اندازاً اردو کی حد تک تو درست ہے۔ ہاں جب عربی بولیں گے تو عربی کے قواعد مد نظر رکھنے ہوں گے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔
تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی