فہیم اسلام انصاری
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا شمار اردو کے مشہور ناقدین میں ہوتا ہے۔ مرا غالب، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی تحریروں میں نمایاں رہے ہیں۔ اردو شاعری میں اساطیر کے حوالے سے ایک استقبالیہ خطبے میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے مرزا غالب کے ایک مطلع کا ذکر کیا
اے نوا ساز تماشا سر بکف جلتا ہوں میں
یک طرف جلتا ہے دل اور یک طرف جلتا ہوں میں
انہوں نے کہا کہ اس مطلع کا اساطیر سے کیا تعلق، اس کی جو وضاحت پیش کی وہ یہ تھی کہ ابتداً روشنی کے لئے دیا جلایا اور دیے جلانے کی روایت دیوالی سے موسوم ہے ،لہٰذا اس مطلع کا کوئی تعلق نہ تو دیے سے ہے، نہ ہی دیوالی سے اور نہ ہی اساطیر سے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اس کا تعلق دیوالی سے جوڑنے کے لئے اس غزل کے ایک اور شعر کا سہارا لیا اور وہ شعر ہے
ہے تماشا گاہ سوز تازہ ہریک عضو تن
جوں چراغاں دوالی صف بہ صف جلتا ہوں میں
یقیناً اس شعر میں دیوالی کا تذکرہ ہے اور اسے ان اشعار میں شامل کیا جا سکتا ہے جن کا تعلق اساطیر سے ہے حالانکہ غالب نے دیوالی کے ثقافتی اظہار کو اپنے شعر میں استعمال کیا ہے نہ کہ اس کے اساطیری معنی میں۔ اساطیری حوالے سے مطابق دیوالی کا جشن چراغاں، سیتا، رام چندر اور بھرت کے بن باس سے واپس لوٹنے کی خوشی کے اظہار کے طور پر کیا گیا تھا اور مرزا غالب نے ’’تماشا گاہ سوز تازہ ہیک عضو تن‘‘ کے اظہار کے جو کسی طور پر بھی مسرت اور جشن کے نہیں استعمال کیا تاہم چونکہ اس شعر میں دیوالی کا تذکرہ ہے تو یہ اساطیری تذکرے کے ضمن میں ضرور آئے گا لیکن نارنگ نے مرزا غالب کی غزل کے مطلع میں جس طرح دیوالی کے اساطیری حوالے کو سمونے کی کوشش کی ہے وہ یکسر غلط ہے۔مطلع:
اے نوا ساز تماشا سربکف جلتا ہوں میں
یک طرف جلتا ہے دل اور یک طرف جلتا ہوں میں
حال ہی میں گوپی چند نارنگ کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کا نام ہے ’’غالب، معنی آفرینی، جدلیاتی وضع، شونیتا اور شعریات‘‘ اپنی اس کتاب میں گوپی چند نارنگ نے انکشاف کیا ہے کس طرح ڈھائی ہزار سال پرانا ایک فلسفہ، غالب کے لاشعور کا حصہ بنا۔ پہلے تو یہ دیکھتے ہیں شونیتا کی فکری اساس کیا ہے۔ شونیتا ایک آگہی ہے اس احساس کی کہ کائنات میں کچھ بھی یعنی کوئی شے، کوئی بھی خیال، کوئی بھی نظریہ، کوئی بھی تصور، کوئی بھی نقطۂ نظر، کوئی بھی اصول قائم بالذات نہیں۔ دوسرے معنی میں کسی شے کی کوئی اصل نہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ غالب کی جو شاعری ہم نے آپ نے پڑھی ہے، غالب جس طرح کی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے کیا وہ اس فلسفہ اور نقطہ نظر کی حامل ہے۔
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا دعویٰ یہ ہے کہ بے شک غالب اس نظریہ کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں، انہوں نے اس کا نام سنا ہو یا نہ سنا ہو، ان کی شاعری متن کے اعتبار سے اس فکر کی عکاس ہے اور غالب کے لاشعور میں یہ فلسفہ موجود تھا۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ ایک قدیم فلسفہ اور فکر کو نہ جاننے کے باوجود کسی شاعر کی شاعری میں اس کی جھلک نظر آئے اور اپنے عہد کی فکری روایتوں، احساسات سے اس کی مماثلت پائی جاتی ہو،اسی تناظر میں اس کی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے، تاہم یہ کہنا تمام تر عدم واقفیت کے باوجود اس کے لاشعور میں یہ فلسفہ موجود تھا۔
اس کی تہذیبی تربیت اور فکری اٹھان کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے ڈھائی ہزار سال پہلے کی ایک طرز فکر کو مرزا غالب کی ذہنی ساخت کا حصہ بنا ڈالا، اگر غیر حقیقی، لایعنی نہیں تو انتہا درجے کی سادگی ضرور ہے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ شونیتا کو غالب کے شعری متن کے حوالے سے سیاق کے طور پر لیتے ہیں۔ آپ جتنے چاہے عقلی یا غیر عقلی گرہیں لڑا لیں ایک ایسے شخص کے لاشعور میں ایک ایسے فلسفے یا سوچ کو نہیں انڈیل سکتے جس سے وہ نہ صرف ناواقف ہو بلکہ اس نے اس کا نام بھی نہ سنا ہو۔
غالب کے بارے میں ایک اور گمراہ کن بات پھیلائی گئی،وہ یہ کہ غالب کا ہندوستانی روایاتی رشتہ جس قدر شعوری تھا اس سے زیادہ لاشعوری تھا۔ غالب کو گزرے ہوئے دو سو سال گزر چکے، سو ان کے لاشعور میں دو سو سال قبل کیا تھا ،اس کا طرز معاشرت، دستیاب مواد یعنی شعوری متن کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے کہ اب تک ایسا کوئی طریقہ، ایسی کوئی تجزیاتی تجربہ گاہ وجود میں نہیں آسکی جو مرنے کے دو سو سال بعد کسی بھی شخص کے لاشعور کا تجزیہ کرسکے۔ سو گوپی چند نارنگ کی شونیتا کی فکر سے اشعار غالب فکری مماثلت اپنی جگہ، تاہم مرزا غالب کے لاشعور میں ڈھائی ہزار سالہ پرانی سوچ کو انڈیلنا لاحاصل ہی رہے گا۔ بڑی شاعری اپنی خصوصیات کے اعتبار سے زمانوں کو اپنے اندر سمیٹتی ہوئی ہوتی ہے۔ چلئے مرزا غالب کے تناظر اسے ایک اور طرح سے دیکھتے ہیں۔ غالب کا ایک شعر ہے
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے ادھر ہوتا کاش کہ مکاں اپنا
آج کے خلائی دور میں جس طرح ایک سال کے بعد ایک سیارے کو سر کرنے کی مہم جاری و ساری ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے امکانات کی قوت متخیلہ نے غالب سے یہ شعر کہلوایا۔ لیکن اگر اس کی تشریح اس طرح کی جائے کہ سائنسی تحقیق تو بعد میں ہوئی غالب کے ذہن رسا میں راکٹ سائنس سے آگہی اب سے دو سو سال موجود تھی تو ایسا کہنے والے کی ذہنی حالت پر شک ہی کیا جانا چاہئے۔
اب سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی غالب کی اس تشریح کے کیا مقاصد تھے۔ مرزا غالب ہندوستان کے پڑھے لکھے روشن خیال طبقوں میں ایک سیکولیر شخصیت کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں لیکن ہندوستان کی ادبی اشرافیہ غالب کو ایک ہندوستانی شاعر قرار دینے پر تلی ہوئی ہے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ غالب کو روشن خیال اور سیکولر ماننے والوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ان کا تعلق ہندوستان سے نہیں لیکن گوپی چند نارنگ اور ادبی اشرافیہ انہیں سبک ہندی کا شاعر کہنے پر مصر ہے۔ غالب خود اپنی فارسی شاعری کے بارے میں جو کچھ کہہ چکے ہیں وہ اب تاریخ کا حصہ ہے لیکن ڈاکٹر گوپی چند نارنگ انہیں ایک ہندوستانی شاعر کہنے پر مصررہے۔ شاید ایسی ہی کسی صورت حال میں غالب نے یہ شعر کہا تھا۔
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔
تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی