• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رابعہ فاطمہ

فکر‘ عمل کا سرچشمہ ہوتی ہے کیونکہ یہ انسان کومتحرک کرتی ہے،اس کا ہر عمل اس کی فکر و سوچ کا عکاس ہوتا ہے کیوں کہ یہ انسان کو کسی بھی کام کے کرنے نہ کرنے پر اکساتی ہے۔ یہ ایک ایسی قوت ہے جو فی نفسہ تو جامد نہیں ہوتی، البتہ انسان کے اردگرد کا ماحول اسے محدود کردیتا ہے اور دائرہ کار بھی مخصوص ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب دنیا ارتقائی منازل طے کرتی ہے تو یہ فکری جمود کا شکار انسان اس بدلتے ہوئے وقت کو قبول کرنے سے قاصر نظر آتا ہے، یہی رویہ پھر بڑھتے بڑھتے عدم برداشت کی بھیانک صورت اختیار کرجاتا ہے۔ نئی زندگی اور توانائی پیدا کرنے کے لیے غورو فکر ، کاٹ چھانٹ اور نئے افکار سے آگاہی ضروری ہے۔ 

ادارے اپنے آپ کو زندہ رکھنے اور ترقی دینے کے لیے ہمیشہ توانائی کے نئے ذرائع کی تلاش میں رہتے ہیں، جس کے لیے نئے افراد اورنئے افکاروخیالات کے تحت سسٹم اورا سٹرکچر کو ترقی دینے کا کام لیتے ہیں لیکن دوسری طرف جمود زدہ اذہان کی طرف سے ان کے خلاف ردعمل بھی سامنے آتا رہتا ہے۔ یہ مرحلہ واقعی کٹھن ہوتا ہے، ایسے میں بوسیدہ خیالات کے بجائے جدیدخیالات کے مطابق اپنے دور کو تعمیر کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔

ایسے مواقع پر جو قومیں بروقت فیصلہ نہیں کرتیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔علامہ اقبال نوجوان نسل کوجمودکے دور سے نکل کرآگے بڑھنے کے لیے انگیخت دیتے تھے،انہوں نے اپنے زمانے کے جمود کا ذکرکرتے ہوئے نوجوان نسل کو تبدیلی اور ارتقا میں اپنا کردار ادا کرنے کی طرف راغب کیا۔ مغرب میں آنے والی تیز رفتار تبدیلیوں اور اپنے ہاں کے جمود پر اظہار رنج کرتے ہوئے کہا کہ

وہاں دگرگوں ہے لحظہ لحظہ

یہاں بدلتا نہیں زمانہ

فی زمانہ نوجوان نسل کا سب سے بڑا مسئلہ جمود کا شکار ہونا ہے۔ ایسے میں وہ اپنی ذات کوزنگ آلود کر رہے ہیں۔ حرکت و عمل ہی سے ترقی و نشوونما ہوتی ہے ۔ جو نوجوان فکری جمود کے شکار ہوتا ہے وہ د دورِ جدید کے حقائق سمجھنے سے قاصر رہتاہے۔ اپنی حقیقت جاننے کے بجائے راہ فرار اختیار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پھر وہ مایوسیوں کا شکار ہو کر منفی قوتوں کے آلہ کار بن جاتا ہے۔

معاشرے میں وہی فرد ممتاز ہوتا ہے جو پانی کی فطرت کے مطابق زندگی گزارتا ہے یعنی بہتے رہنا اور جو اس سے انحراف کرتا ہےووہ آگےترقی نہیں کرتا۔ معاشرے میں نظر دوڑائی جائے تو فکری جمود نوجوان نسل میں ناسور کی طرح پنپ رہی ہے۔ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے بجائےاندھی تقلید کی طرف مائل ہیں۔ یہ ایک ایسی وباء ہے جو کسی باشعور انسان میں تو ہرگز نہیں پائی جاسکتی یہی وجہ ہے اقبال نے نوجوانوں کو مخاطب کرکے کہاکہ

تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو

کر اِس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ

اقبال نے نوجوانوں کو جستجو، خودی کی تلاش کے لیے اپنے کلام سے متحرک کرنے کی سعی کی ۔ وہ چاہتے تھے کہ نوجوانون متحرک ہوں، جستجو اور لگن رکھنے والے ہوں اور خودی کی تلاش میں کوشاں ہوں۔وہ جانتے تھے پاکستان کی ترقی اسی میں ہے کہ جب نوجوان فکر و تدبر سے اپنے حال کو بہتر بنائیں گے۔ حال بہتر ہوگا تو ہی مستقبل تابناک اور روشن ہوگا۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی صورت حال زبوں حالی کا شکار ہے۔ آخر کیا وجہ ہے؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ نوجوانوں کو اپنے سیاسی قائدین کے علاوہ کوئی حق پر لگتا نہیں ہے ان کے لیے لڑنے مرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ آیاوہ حق پر ہے بھی یا نہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ ان کی ذہنی سوچ و فکر پر جمود طاری ہے۔

یہ ایک ایسا مرض ہے جونسلِ نوکو علمی و عملی میدان سے دور رکھتاہے ۔ وہ غور و تدبر سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ آج نوجوانوں کو جو سیاسی، معاشرتی طور پر محدود سوچ کا پابند کیا جارہا ہے تو کیسے یہ ملک ترقی کرے گا؟ کیا ایسا معاشرہ معاشی طور پر ترقی کرسکتا ہے جس کی سوچ، جس کی فکر محدود دائرے کے گرد گھومتی ہو۔ فکری جمود معاشرے کے ہر ادارے کو متاثر کرتی ہے۔

نوجوانوں کو یہ سمجھنا ہوگا بغیر محنت کے کچھ حاصل کرنا ناممکن ہے۔ آج بے شک دنیا ایک فون میں سمٹ آئی ہے لیکن اس ایک فون میں اپنی پہچان بنانے کے لیے بھی خود کو متحرک کرنا ہوگا۔ تساہل پسندی، تن آسانی سے وقتی جسمانی آرام تو مل سکتا ہے لیکن ذہنی سکون نہیں کیوں کہ انسان کی فطرت میں ہی اللہ کریم نے ارتقاء رکھی ہے، جستجو اور تحریک رکھی۔ انسان جب خود کو غور و فکر سے پہچانتا ہے کہ وہ کون ہے، کیا ہے اور اسے کیا کرنا ہے تو وہ نہ صرف ذہنی طور پر پرسکون ہوجاتا ہے بلکہ وہ اپنی دنیا بدلنے کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہے تو قدرت بھی اس کی راہیں ہموار کرنے لگتی ہے۔

نوجوان جو شعوری منازل طے کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہتے ہیں وہ نہ صرف معاشی طور پر مستحکم ہوتے ہیں بلکہ وہ اخلاقی طور پر بھی نمایاں نظر آنے لگتے ہیں۔ انسانی رویہ معاشرے کی تشکیل میں سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر انسان فکری جمود کا شکار ہوجائے تو اس کے رویے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور یہ بگاڑ معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ 

شعور و فکرہی جذبات کو سنوارتےاور نکھارتےہیں تاکہ انسان کسی بھی قسم کی افراط و تفریط سے محفوظ رہے۔ آج معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم فکری جمود کی طرف نشان دہی کررہے ہیں کیوں کہ شعوری طور پر مفلوج نوجوان کو اچھائی و برائی کی تمیز نہیں رہتی۔ وہ کسی قانون کی پاسداری کو اپنا فرض نہیں سمجھتا۔

یہ بات نوجوانوں کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ آج ہم جتنے بھی مسائل کا شکار ہیں وہ اسی فکری جمود کے سبب ہیں ہمیں شعوری طور پر بیدار ہونے کی اشد ضرورت ہے۔