• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بابر جان

قیام پاکستان کا مقصد محض زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنا نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی ریاست کا قیام تھا، جہاں اسلامی اصولوں کی روشنی میں ایک سیاسی، سماجی، تعلیمی اور معاشی نظام تشکیل دے کر ایک جد ید فلاحی ریاست کا نمونہ پیش کیا جاسکے جو فکر و تدبر سے نسل انسانی کے مسائل کا ممکنہ حل پیش کر سکے بد قسمتی سے پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں ہماری قوم نے عالمی معیا رات اور امکانات کو مدنظر نہیں رکھا۔ نسل انسانی میں جتنی بھی جدت اور انقلاب آئے ہیں، ان کے پیچھے ہر طبقہ کے افراد کی فکر کا رفر ما رہی ہے۔ دیگر اقوام کی نسلِ نو اپنے خوبواں کو پورا کرنے کےلئے اپنے مستقبل کا انتخاب خودکرتے ہیں۔

اپنی علمی قابلیت اور صلاحیت بڑھا کر کم عمری میں ہی اس کے مطلوبہ معیارات سے روشناس ہو جاتے ہیں۔ ہماری نسل نو کو بھی اپنے رویے ،کامیابی کے اصولوں سے ہم آہنگ کرنا چاہیے۔ ہر وقت ایک ہی ذہنی حالت میں رہنے کی بجائے حالات کے پیش نظر اپنی کیفیت اور اندازفکر بدلنے چاہیے۔ اپنے دماغ سے غیر سنجیدہ اوربے مقصد خیالات کو تر ک کر نا ہوگا۔ بے مقصد آرزؤں کے سحر میں مبتلا نوجوانوں کو اپنا ذہنی رویہ اور نقطۂ نظر بدلنے کی ضرورت ہے۔ علم ِعر فان کی عدم موجودگی میں علم محسوسات اور ادراک تعمیر کی بجائے تخریب ہی کرتا ہے۔

یورپ اور تر قی یافتہ ممالک فزیکل اور انٹلیکچول ڈیویلیپمنٹ کےساتھ سوشل ڈیویلیپمنٹ کی بھی کوشش کررہے ہیں۔ ہر زمانے میں پنپنے کے اپنے انداز ہوتے ہیں۔ ہمارا عہد سائنس اور ٹیکنالوجی کےانقلاب کا ہے۔ آئے روز کائنات کے چھپے راز منکشف ہو رہے ہیں اور اظہارِ دنیا کے تناظر بدل رہے ہیں۔ اس علمی انقلاب میں پاکستانی نسل نو کو کردار کیا ہے؟ ایک زمانہ گزر گیاکہ ہم متحرک نہیں رہے۔ ایک وہ وقت تھا کہ جب دنیا ہر اصول اور جدت کےلئے ہمارے اسلاف کی طرف دیکھتی تھی۔ آج گلوبل آڈر کی ترقی میں ہمارا کوئی واضح کردار نہیں رہا۔

اقوام عالم اپنی نسلوں کی علم و دانش کی پختگی اور تربیت ان خطوط پر کر رہی ہے۔ قابلیت کے اعتبار سے ان میں اور ہمارے بچوں میں ایک واضح فرق نظر آتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں پہلی سٹیج سے آگے جا کر دماغی قوت اور صلاحیت کے بڑھانے کو شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ نتیجتاً آبادی کے بیشتر حصہ کامقدر فیصلہ ساز پالیسی بنانے والے بااختیار ایگزیکٹو ٹائپ پوزیشن کی بجائے محض مشقت و مزدوری اور کلیریکل ٹائپ ملازمت کا حصہ بن جاتے ہیں۔

ہمارے نوجوا ن یورپ اور امریکہ کے مادی اور پُر تعیش طرزِ زندگی کے سحر میں مبتلا ہیں اور ماڈرن ازم کے نام پر اپنی اقدار کو فرسودہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن ان کی توجہ صرف ماڈرن ازم کے آزاد خیال طرز عمل پر ہوتی ہے۔ وہ مارڈن ازم کی اصل خصوصیات سے نا آشنا نظر آتے ہیں۔ جیسے علم، فن، ہنر، ایجاد، ریسرچ، ٹیکنالوجی اور ترقی کے آداب و اطوار وغیرہ، لہٰذا ترقی یافتہ دنیا سے بے حیائی اور عارضی بد نمامادی تخیلات قبول کرنے کی بجائے ان کی ترقی کے وہ بنیادی اصول اپنا نے کی ضرورت ہے جن پہ کاربند ہوکر انہوں نے زمانے کا رُخ اپنی طرف موڑ لیا ہے۔

نوجوانو! دوسرے ممالک کے نوجوان Space Technology کے ذریعےستاروں کے جہاں کو تسخیر کرکے نئی دنیا بسانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ وہ آسمان کی حدوں کو چھونے کی آرزو رکھتے ہیں۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور روبوٹک ٹیکنالوجی کے ذریعے مستقبل میں اکثر شعبہ ہائے زندگی جدت اختیار کر رہے ہیں، جیسے ریسٹورنٹ، ورک شاپ، فیکٹریاں، تعلیمی شعبہ حتیٰ کہ روبوٹک آرمی۔ اسی طرح جیالوجیکل یا ارتھ سائنسز میں عدم دلچسپی اور ان سے لاعلمی پاکستان جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال ملک کو اپنے معدنی وسائل سے استفادہ کرنے کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے۔

فری لانسسنگ اور سافٹ ویئر انجنیئرنگ میں پاکستانی نو جوانوں کی عالمی سطح پر کامیا بیوں کا سلسلہ تو چل پڑا ہے لیکن اس رجحان میں اضافہ کی ضرورت ہے۔ ترقی کی نتیجے میں پید ا ہونے والے چیلنجزسے نمٹنے میں پاکستانی نسل نو کو میڈیکل،بائیو سائنسز اور انوا ئر مینٹل سائنسز میں اپنے ہم عصر اقوام کے مقابلے میں کردار ادا کرنا ہو گا۔ نسل نو کو مستقبل کے مارکیٹ اور انڈسٹریل تقاضوں کے مطابق ماہر افرادی قوت بننا ہوگا۔ اقوام عالم کے ہم پلہ بنانےکےلئے بروقت منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

فطرت منصفانہ ہے بلاوجہ کسی قوم کے سرپر حکمرانی کا تاج نہیں سجاتی۔ اپنے آپ کو اس قابل بنانا پڑتا ہے کہ نظام عالم کا بوجھ اُٹھا سکیں۔ دنیا کے لیے طب و طبیعیات ، سائنس و ٹیکنالوجی، تعلیم و تربیت، قانون و نظام معاشرت، حکمرانی و انتظامی امور، سیاست و سفارت، ثقافت و صحافت الغرض! بنی نوع انسان کے لیے روئے زمین پر ایک منصفانہ اور ترقی پسند نظام واضع کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔ عروج کسی ایک پہلو میں ترقی کرنے سے نہیں آتا۔

قوم کے معماروں کو بیک وقت ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنا لوہا منوانا پڑتا ہے اور اپنا مزاج و اطوار، نقطۂ نظر و ذہنی حالت، نفسیات و رویے، معیارات و انداز اور ترجیحات بدلنا پڑتی ہیں۔ اپنے بنیادی عقائد ونظریات اور روایات و فلسفہ حیات پہ قائم رہتے ہوئے رونما ہونے والی مثبت تبد یلیوں کو خوش اسلوبی سے قبول کرنا پڑتاہے۔ اس کے بعد تفکر اور تحقیق کے سمندر میں غوطہ زن ہو کرموجودہ اور ممکنہ مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ پھر دیر پا خوش حالی اور پائید ار ترقی کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔