غرقاب جہاز ٹائی ٹینک کی سیر کو جانے والی لاپتہ آبدوز ٹائٹین کی تلاش جاری ہے، اس حوالے سے برطانوی اخبار نے بتایا ہے کہ کینیڈا کے طیارے کو ٹائی ٹینک ڈوبنے کے مقام سے سگنلز موصول ہوئے ہیں۔
برطانوی اخبار کا دعویٰ ہے کہ سگنل ہر 30 منٹ بعد موصول ہو رہے ہیں، امریکی ہوم لینڈ سیکیورٹی کے ساتھ ای میل کے تبادلے میں یہ بات سامنے آئی ہے۔
برطانوی اخبار کے مطابق سمندر میں موجود جدید ترین ’سونو بوائیز‘ سگنل جانچنے میں کامیاب رہے ہیں۔
صدر ایکسپلورر رچرڈ گیریٹ کا اس حوالے سے جاری کیے گئے بیان میں کہنا ہے کہ ڈیٹا کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ زندگی کے اشارے ملے ہیں۔
امریکی حکومت کے درمیان رابطوں میں انکشاف ہوا ہے کہ لاپتہ آبدوز کی تلاش کے لیے اضافی سونر ڈیوائسز کے استعمال کے بعد بھی بینگنگ ساؤنڈ سنی گئی۔
امریکی میمو کے مطابق لاپتہ آبدوز کی تلاش کے دوران اضافی صوتی اثرات سنے گئے ہیں۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق امریکی کوسٹ گارڈز نے بھی لاپتہ آبدوز کی تلاش کے دوران زیرِ سمندر آوازیں سنی جانے کی تصدیق کی ہے۔
امریکی کوسٹ گارڈز کا کہنا ہے کہ آبدوز کی تلاش کے دوران کینیڈین طیارے نے زیرِ سمندر آوازوں کا پتہ لگایا ہے۔
برطانوی اخبار کے مطابق حکام نے رپورٹ کی تصدیق نہیں کی ہے۔
واضح رہے کہ بحرِاوقیانوس میں سیاحوں کی لاپتہ آبدوز ٹائٹین کی تلاش جاری ہے۔
لاپتہ آبدوز کی تلاش میں امریکا اور کینیڈا کے بحری جہاز اور طیارے حصہ لے رہے ہیں۔
21 فٹ کی آبدوز ٹائٹین مقامی وقت کے مطابق اتوار کی صبح 4 بجے روانہ ہوئی تھی مگر پونے 2 گھنٹے بعد ہی اس کا رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔
ٹائٹین کی خامی یہ ہے کہ یہ خود اپنی سمت متعین کرنے سے قاصر ہے، یہ سمندر کی سطح پر موجود جہاز سے ملنے والے ٹیکسٹ میسیجز پر انحصار کرتی ہے۔
امریکی حکام نے اس میں موجود پانچوں افراد کی شناخت ظاہر نہیں کی تاہم تصدیق کی ہے کہ ان میں سے 1 پائلٹ ہے جبکہ 4 مشن اسپیشلسٹ ہیں۔
گزشتہ روز برطانوی میڈیا نے انکشاف کیا کہ ٹائی ٹینک کے ملبے کی سیر کرانے والی لاپتہ آبدوز میں 2 پاکستانی بھی سوار تھے۔
اہل خانہ نے جاری کیے گئے بیان کے ذریعے بتایا ہے کہ لاپتہ آبدوز میں پاکستانی تاجر شہزادہ داؤد اور ان کا بیٹا سلیمان بھی سوار تھے، جن سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان ٹائی ٹینک کی باقیات دیکھنے آبدوز میں گئے تھے۔
شہزادہ داؤد برطانیہ میں مقیم اور ایس ای ٹی آئی انسٹی ٹیوٹ میں ٹرسٹی ہیں، وہ ایک نجی کمپنی میں بطور نائب چیئرمین خدمات انجام دے رہے ہیں۔
برطانوی میڈیا کے مطابق ٹائٹین میں موجود افراد میں اسی کمپنی اوشین گیٹ کے سی ای او اسٹاکٹن رش Stockton Rush، فرانسیسی بحریہ کے سابق اہلکار پال ہنری نارجیولیٹ PH Nargeolet اور گینیز ورلڈ ریکارڈ یافتہ برطانوی ارب پتی ہیمش ہارڈنگ Hamish Harding بھی موجود ہیں۔
خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ٹائٹین بحیرِ اوقیانوس میں ساڑھے 12 ہزار فٹ گہرائی میں موجود ٹائی ٹینک جہاز کے ملبے میں ممکنہ طور پر پھنس گئی ہے۔
امریکا کی ریاست میساچوسٹس میں کیپ کوڈ سے 9 سو میل مشرقی علاقے میں ممکنہ طور پر موجود اس ٹائٹین کو ریسکیو کرنے کے لیے امریکا اور کینیڈا نے طیارے اور جہاز بھیجے ہیں۔
امریکی بحریہ کے افسر ریئر ایڈمرل جان ماؤجر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ہر ممکن کوشش جاری ہے مگر ابھی یہ واضح ہی نہیں ہو پایا کہ ٹائٹین کس مقام پر ہے، یہ بھی کہ اگر ٹائٹین ملبے میں پھنس گئی تو کوسٹ گارڈ اسے نکال پائیں گے یا نہیں۔
ٹائی ٹینک جہاز 15 اپریل 1912ء کو انگلینڈ سے نیویارک آتے ہوئے برفانی تودے سے ٹکرا کر ڈوب گیا تھا، حادثے میں 1500 افراد ہلاک ہو گئے تھے، تاہم جہاز کا ملبہ 1985ء میں ملا تھا۔
ٹائی ٹینک کا ملبہ بحرِ اوقیانوس میں 12 ہزار 500 فٹ کی گہرائی میں موجود ہے، جو نیو فاؤنڈ لینڈ اور کینیڈا کے ساحل سے تقریباً 600 کلو میٹر دور ہے۔
ڈوبے ہوئے جہاز میں لوگوں کی دلچسپی 1997ء میں جیمز کیمرون کی بنائی گئی فلم ٹائی ٹینک سے پیدا ہوئی تھی جس کے بعد 2009ء میں اوشین گیٹ کمپنی نے سیاحوں کو اس مقام کا دورہ کرانا شروع کیا تھا۔
5 افراد کی گنجائش والی یہ آبدوز 96 گھنٹوں کے لیے آکسیجن کے ساتھ زیرِ آب رہ سکتی ہے۔
اوشین گیٹ کی جانب سے آبدوز ٹائٹین سے رابطہ منقطع ہونے کے بعد اس کے لاپتہ ہونے کا اعلان کیا گیا۔
ٹائٹین میں اس سیاحت کے لیے فی کس ساڑھے 7 لاکھ روپے کا ٹکٹ لینا ہوتا ہے۔
فائبر اور ٹائیٹینیم سے بنی اس ٹائٹین نامی آبدوز میں ایک کھڑکی سے نظارہ کیا جاتا ہے۔
ٹائی ٹینک کی سیاحت کرانے والی اس کمپنی کے مطابق موسمی حالات کے سبب یہ اس سال کا واحد مشن تھا۔