کون بنے گا پی سی بی چیئر مین؟ اس کا فیصلہ منگل کو ہوگا۔ چوہدری ذکاء اشرف دوسری بار پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بننے کے لئے مضبوط امیدوار ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کو اگلے ماہ سری لنکا کے خلاف دو ٹیسٹ کی سیریز کھیلنا ہے۔ بابر اعظم ، محمد رضوان سمیت کئی کھلاڑی ان دنوں حج کی سعادت کرنے گئے ہوئے ، پاکستان کرکٹ بورڈ ہیڈ کوارٹر میں کوئی چیز نارمل نہیں ہے۔ نجم سیٹھی کو سیاسی کشمکش کی وجہ سے پی سی بی کی طاقتور کرسی سے ہاتھ دھونا پڑابلکہ ان کی آخری میٹنگ کو غیر قانونی قرار دے کر ان کے دور کو داغ دار کردیا گیا۔ نجم سیٹھی کو اس وقت سبکی اٹھانا پڑی جب ان کی سربراہی میں مینجمنٹ کمیٹی کی میٹنگ کو غیر قانونی قرار دے کر اس کا فیصلہ یکسر تبدیل کردیا گیا۔
نجم سیٹھی کو امید تھی کہ وہی تین سال کے لئے چیئرمین بنیں گے لیکن پیپلز پارٹی نے ذکا ء اشرف کو بی او جی میں شامل کرواکر حکومت سے اپنا مطالبہ منوالیا۔ آدھی رات کو نجم سیٹھی سوشل میڈیا پر ٹوئٹ کرکے سب کو حیران کر گئے۔ نجم سیٹھی نے لکھا کہ ’میں آصف زرداری اور شہباز شریف کے درمیان تنازع کا سبب نہیں بننا چاہتا۔ ایسا عدم استحکام پی سی بی کے لیے ٹھیک نہیں۔ میں موجودہ صورتحال میں چیئرمین شپ کا امیدوار نہیں ہوں۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے نیک تمنائیں، نجم سیٹھی نے پی سی بی سے رخصت ہوتے وقت آخری میٹنگ کی صدارت کرکے نیا بورڈ آف گورنرز تشکیل دیا تھا۔
پی سی بی میڈیا ڈپارٹمنٹ نے اس میٹنگ کا پریس ریلیز جاری کیا لیکن 48 گھنٹے بعد پی سی بی کے الیکشن کمشنر کے اس فیصلے کو تبدیل کردیا تیسری بار بورڈ آف گورنرز کو تبدیل کردیا گیا ہےپاکستان کرکٹ بورڈ نے پی سی بی چیئرمین کے انتخابات بدھ28جون کو پی سی بی میں ہیڈ کوارٹر میں کرانے کا اعلان کیا ہے اور نجم سیٹھی کی صدارت میں ہونے والی مینجمنٹ کمیٹی کی میٹنگ اور بورڈ آف گورنرز کو غیر آئینی اور قانونی قرار دے دیا ۔جس کے بعد تیسری بار بورڈ آف گورنرز کی تشکیل دی گئی ہے۔ پی سی بی ترجمان کا کہنا ہے کہ بین الصوبائی رابطے کی وزارت نے 20جون کی سہ پہر کو منیجمنٹ کمیٹی تحلیل کردی تھی جس کے بعد نجم سیٹھی اور ان کے ساتھیوں کے پاس اجلاس بلانے کا کوئی جواز نہیں تھا۔
پی سی بی کے قائم مقام چیئرمین اور الیکشن کمشنر احمد شہزاد فاروق رانا نے 2014کے آئین کے پیر گراف دس کے تحت نیا بورڈ آف گورنرز تشکیل دیا ہے جس میں ریجن سے آزاد کشمیر کی جگہ حیدرآباد جبکہ ڈپارٹمنٹس سے واپڈا اور کے آر ایل کی جگہ نیشنل بینک اور اسٹیٹ بینک کو شامل کیا ہے۔جمعرات کی شام پی سی بی کے الیکشن کمشنرنے نوٹی فیکیشن جاری کیا جس کے مطابق نیا بورڈ آف گورنرز تشکیل دیا گیا ہے۔ الیکشن کمشنر نے نوٹی فکیشن وزارت بین الصوبائی رابطہ کمیٹی کے نوٹی فکیشنز کے مطابق جاری کیا۔
میڈیا ریلیز کے مطابق وزارت بین الصوبائی رابطہ کمیٹی کی جانب سے منیجمنٹ کمیٹی کے بیس جون کو تحلیل ہونے کا نوٹی فکیشن ملا۔ منجمنٹ کمیٹی کی مدت مکمل ہونے پر تحلیل ہونے کے بعد نوٹی فکیشن جاری ہوا۔ الیکشن کمشنر احمد شہزاد فاروق رانا جو قائم مقام پی سی بی چیئرمین ہیں نے 2014 کے آئین کے مطابق گورننگ بورڈ تشکیل دیا ہے۔ گورننگ بورڈ میں پیٹرن کے نامزد کردہ چوہدری ذکاء اشرف اور مصطفے رمدے شامل ہیں۔
ڈپارٹمنٹس میں نیشنل بنک اسٹیٹ بنک سوئی ناردن گیس اور سوئی سدرن گیس شامل ہیں جبکہ ریجن میں لا ڑکانہ، ڈیرہ مراد جمالی، بہاولپور اور حیدر آباد ریجن گورننگ بورڈ میں شامل ہیں۔ نجم سیٹھی کی سربراہی میں پی سی بی کی منیجمنٹ کمیٹی نے 14جون کو پی سی بی نے بورڈ آف گورنرز کے لئے ڈیرہ مراد جمالی، لاڑکانہ، بھاولپور اور آزاد کشمیر ریجن کے نمائندوں کو نامزد کیاتھا۔اس وقت تک نجم سیٹھی کو یقین تھا کہ وہی پی سی بی چیئرمین بنیں گے۔ لیکن پھر 20جون کو پی سی بی منیجمنٹ کمیٹی نے اپنے آخری اجلاس میں بورڈ آف گورنرز کے لئے کراچی، لاہور، راولپنڈی اور پشاور کے نمائندوں کو نامزد کردیا، نجم سیٹھی کے دستخط سے جاری ہونے والے جس خط میں 20جون کو بی او جی کی تشکیل کی گئی ہے اس خط میں پی سی بی کے آئین کی شق دس کا حوالہ دیا گیا۔
منیجمنٹ کمیٹی کے ایک رکن نے نام نہ بتانے کی شرط پر جنگ کو بتایا کہ ایم سی نے نجم سیٹھی کو 2014کے آئین کے مطابق روٹیشن پالیسی کے تحت بی او جی کی تشکیل کی ذمے داری سونپی تھی۔14جون کی میٹنگ میں بورڈ کی تشکیل کرکے چار دن بعد اسے تبدیل کردیا گیا اور اس بار ایم سی نے 2017-18کی کارکردگی پر چار ریجن کا انتخاب کیا۔ ایم سی اراکین کہتے ہیں کہ جس لیٹر کے ذریعے دوسرا بورڈ آف گورنرز تشکیل دیا گیا اس کی منظوری حاصل نہیں کی گئی۔ بلکہ 14جون کے بی او جی کو تشکیل دینے کے لئے جو منظوری حاصل کی گئی تھی اسے ہی بنیاد بنا یا گیا۔ 20جون کے منٹس میں ساری کہانی موجود ہے۔
سابق کپتان راشد لطیف کو کرکٹ کے معاملات پر عبور حاصل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عام انتخابات میں کچھ نہیں ہوتا جو کرکٹ الیکشن میں ہوتا ہے، کرکٹ کے الیکشن میں اندھا پیسہ چلتا ہے۔ پاکستان میں کرکٹرز کو آگے نہیں لایا جاتا، سب کو چیئرمین پی سی بی کی کرسی چاہیے، یہ دیگر کھیلوں کی طرف کیوں نہیں جاتے۔ نچلی سطح پر الیکشن اور اوپر سلیکشن ہوتی ہے۔ نچلی سطح پر بھی ڈمی الیکشن ہوتے ہیں، ان الیکشن میں کبھی کوئی کرکٹر منتخب نہیں ہوتا، پی سی بی کے گورننگ بورڈ میں بھی کرکٹر نہیں ہوتے، بورڈ میں کرکٹ کے فیصلے وہ کرتے ہیں جن کا کرکٹ سے تعلق نہیں ہوتا۔ بی او جی میں ادارے کا نمائندہ ہو ں لیکن وہ اس ادارے کا کرکٹر ہونا چاہیے، بھارت میں گنگولی بنگال کا اور انیل کمبلے کرناٹک کا ذمہ دار بنتا ہے، پاکستان میں کرکٹرز کو آگے نہیں لایا جاتا، سب کو چیئرمین پی سی بی کی کرسی چا ہئے، دیگر کھیلوں کی طرف کیوں نہیں جاتے۔
ملک کے جنرل الیکشن میں کچھ نہیں ہوتا جو کرکٹ الیکشن میں ہوتا ہے، پاکستان میں کرکٹ کے سسٹم کو درست کرنا پڑے گا۔ کرکٹ میں نچلی سطح پر الیکشن ہوتے ہیں جبکہ اوپر سلیکشن ہوتی ہے، چیئرمین پی سی بی کے لیے جو 2 نام دئیے گئے ہیں ان کی سلیکشن ہوئی ہے۔ راشد لطیف نے کہا کہ نچلی سطح پر بھی ڈمی الیکشن ہوتے ہیں، ان الیکشن میں کبھی کوئی کرکٹر منتخب نہیں ہوتا، کراچی لاہور یا کسی بھی شہر کا صدر ٹیسٹ کرکٹر کیوں نہیں ہوتا۔ پی سی بی کے گورننگ بورڈ میں بھی کرکٹرز نہیں ہوتے اور کرکٹ کے فیصلے وہ کرتے ہیں جن کا کرکٹ سے تعلق نہیں ہوتا۔
واضح رہے کہ گذشتہ چند روز سے یہ قیاس آرائیاں عام ہیں کہ چیئرمین پی سی بی کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان تنازع چل رہا ہے اور اس دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے یہ دعوے کیے گئے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ذکا اشرف کو چیئرمین بنانا چاہتی ہے جبکہ مسلم لیگ ن نجم سیٹھی کو چیئرمین پی سی بی رکھنا چاہتی ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں اسی معاملے پر نجم سیٹھی کو ذکا اشرف کے مقابلے میں عدالتی کارروائی کا سامنا رہا ہے۔ پاکستان کرکٹ کے لئے مشہور ہے کہ کرکٹ ہو یا نہیں، یہ ادارہ ہر وقت خبروں میں رہتا ہے۔ عید کی چھٹیوں سے قبل نیا چیئرمین آجائے گا لیکن لگ رہا ہے کہ تنازعات رکنے والے نہیں ہے۔ عید کے بعد دما دم مست قلندر ہونے کے امکان ہیں۔