موجودہ دور سائنس و ٹیکنالوجی کا ہے جتنی بھی ایجادات وجود میں آرہی ہیں۔ اس میں زیادہ تر کا تعلق برقی توانائی سے ہے ،کیوںکہ ان ایجادات کی عملی کارکردگی کے لئے کسی نہ کسی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے برقی توانائی کے بڑھتے ہوئے استعمال کے پیش نظرجہاں برقی توانائی کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کے لئے سائنسدانوں نے کافی کام کیا۔ وہاں اس توانائی کے جدید استعمالات نے خود سائنسدانوں کو حیران کردیا۔ درج ذیل میں ایسی ہی چند ایجادات و استعمالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
جسم کے اعضاء کا بطور ٹرانسسٹر استعمال
تل ابیب یونیورسٹی (TAU) کے محققین خون، دودھ اور میوکس پروٹین کو ٹرانسسٹر میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ یہ ایجاد حیاتیاتی انحطاط پذیر اور لچکدار برقی آلہ جات کی تیاری کے لیے وسیع بنیاد فراہم کرے گی۔ دودھ، میوکس اور خون کے پروٹین کے مختلف بلاک کو استعمال کرتے ہوئے محققین کی ٹیم نے دریافت کیا کہ نینو اسکیل پر نیم موصل Semi Conducting فلم تیار کرنا ممکن ہے۔
ان فلمز کی مدد سے مکمل الیکٹرونک فلم بنائی جاسکتی ہے جو کہ کارآمد برقی اور بصری خوبیوں کی حامل ہوں گی۔ ان پروٹین کی مختلف خصوصیات کو استعمال کرتے ہوئے مختلف موصلیت Conductivity اور Memory Star Age ، Flourescenceکے حامل ٹرانسسٹرز بنائے جاسکتے ہیں۔ اس وقت استعمال کیے جانے والے سیلیکون ٹرانسسٹرز میں خرابی یہ ہے کہ یہ مڑنے پر ٹوٹ جاتے ہیں۔ پروٹین پر بنی ٹرانسسٹر انتہائی لچکدار ہیں اور ان کو ٹی وی ڈسپلے، موبائل فون، ٹیبلٹ یا بایو سینسرز اور مائیکرو چپس میں آسانی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مواد حیاتیاتی طور پرانحطاط پذیر ہے۔
ٹریکٹر شعاعیں … مادّے کی ترسیل کے لیے
ماہرین نےبرقی مقناطیسی شعاعوں کو استعمال کرتے ہوئے مادّے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرناممکن بنا دیا ہے، تاہم روشنی پر مادّے کو منتقل کرنے کے عمل کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے ابھی کچھ صدیاں مزید درکارہوں گی۔آسٹریلیا کی نیشنل یونیورسٹی (ANU) کے شعبہ لیزر فزکس سینٹر کے پروفیسر اینڈری روڈ اور ان کے ساتھیوں نے گزشتہ سال صرف روشنی کی طاقت سے ذرّات کو نصف میٹر کے فاصلے پر منتقل کرنے کا مظاہرہ کیا۔ روشنی کی شعاعوں کو بطور آپٹیکل پائپ لائن استعمال کیا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شعاع کے گہرے والے کنارے کا مرکزی حصہ ہوا کے مالیکیولز کی بے ترتیب حرکت سے اپنی جگہ سے ہٹ گیا، جس کے نتیجے میں ذرّے کا ایک حصہ وقفے وقفے سے روشنی کے سامنے آتا ہے، جب کہ دوسرا حصہ اندھیرے میں رہتا ہے۔ اس عمل سے ہلکا سا جھٹکا پیدا ہوتا ہے (ایک خاص مظہر جیسے Photophoratic Effect کہا جاتا ہے) جو ذّرات کو آپٹیکل پائپ لائن میں دھکا دیتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور تیکنیک میں پیدا ہونے والے خلاء کوبرقی مقناطیسی شعاع کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار میں Optical Solenoid شعاعوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ دائرے میں گھومتی ہوئی موجیں ایک طاقت پیدا کرتی ہے۔ یہ طاقت ذرّات کو روشنی کی شعاع کی مخالف سمت میں لے جاتی ہیں۔ امریکی خلائی ایجنسی ناسا اس تیکنیک کو مادّے کو خلاء میں طویل فاصلے پر منتقل کرنے کے لیے استعمال کرنے پر غور کررہی ہے۔
تیز رفتار ٹرینیں
ٹیکنالوجی کی تیاری اور اس برآمدات میں چین غیرمعمولی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔اس حوالے سے چین میں ہونے والی ایک اہم پیش رفت سپر فاسٹ ٹرین کی تیاری ہے۔ یہ ٹرینیں 500کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرسکتی ہے۔ تلوار کی شکل کی یہ ٹرینیں چین کی کمپنی Locomotive and Rolling Stock نے تیار کی ہے۔ یہ ٹرین جاپان کی مقناطیسی ٹرین ،تیز ترین رفتار 185کلومیٹر فی گھنٹہ اور فرانس کی TGV تیز ترین رفتار کلومیٹر فی گھنٹہ کے مقابلے کی ٹرین ہے۔
بیٹری سےحاصل ہونےوالاخام مواد برقی کاروں کے لیے
برقی کاروں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ان کی بیٹریوں کوچارج کرنے کے لیے درکارمواد ہے۔ لیکن اب اس کا حل تلاش کرلیا گیا ہے۔ ان بیٹریوں کو پہلے سےجارج شدہ بیٹری کے محلول سے چارج کیاجائےگا۔ ڈسچارج ہونے والی بیٹری کاسیال مادّہ ایک تھیلے یا لفافے میں پمپ کےذریعے باہر نکال دیا جائےگا۔ بالکل ایسےجس طرح آپ خالی ٹینک میں پیٹرول بھرتے ہیں۔
برقی اشیاء کی مدد سے سونگھنا
نینو ٹیکنالوجی کے اطلاق الیکٹرونکس، ادویات، ٹیکسٹائل اور بے شمار دوسرے میدانوں میں دریافت ہورہے ہیں۔ اس کے اطلاقات میں بلٹ پروف کاغذ، ہلکے اور لچکدار ٹی وی ڈسپلے اسکرین، میڈیکل آلہ جات، بیمار خلیات کو ہدف بنانے والے انجینئر ذرّات،نینو غذائیں اس کے علاوہ ہوائی جہازوں اور خلائی جہاز میں استعمال ہونے والے پرزہ جات شامل ہیں۔ اب یونیورسٹی آف پینی سلوانیہ کے محققین نے پروفیسر چارلی جانسن کی سربراہی میں نینوٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے برقی ناک (Electronic Nose ) تیار کی ہے۔
اس کو تیار کرنے میں کاربن نینو ٹیوب کا استعمال کیا گیا ہے ۔ اور اس میں پروٹین کے بعض وصولیوں( Receptor )کی پیوندکاری کی گئی ہے، جس کے بعد یہ ناک کے فعل کی نقل کرسکتے ہیں۔ ہماری ناک اس طرح کام کرتی ہے کہ جب مختلف کیمیائی اجزاء ہماری ناک میں داخل ہوتے ہیں تو یہ بعض وصولی پروٹین سے تعامل کرتے ہیں۔ یہ پروٹین ناک کی بیرونی جھلی Outer Membrane پر موجود ہوتے ہیں اور پھر یہ خلوی تعامل Cellular Reaction شروع کرتے ہیں۔
چین سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں نے مصنوعی ناک میں چوہے کی ناک سے حاصل کردہ Receptor کا استعمال کیا ہے اور پھر اس کو کاربن نینو ٹیوب ٹرانسسٹر سے جوڑا گیا۔ الیکٹرانک سینسرز پرشناخت سے قبل کیمیائی اشاروں کو برقی اشاروں میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ اس طرح فضا میں موجود مختلف کیمیائی اجزاء کو انتہائی حساسیت کے ساتھ شناخت کیاجاتا ہے۔ برقی ناک کو دھماکہ خیزمواد کی شناخت کے لیے ایئر پورٹس پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی استعمالات دریافت ہونے کی اُمید ہے۔
فیول سیلز سے بجلی کی پیداوار
فیول سیلزکیمیائی توانائی کوبرقی توانائی میں تبدیل کردیتے ہیں جن کو مختلف مقاصدکےلیےاستعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت مختلف اقسام کےفیول سیلزموجود ہیں ۔ مثلاً ہائیڈروجن سیلزجوکہ ہائیڈروجن کےساتھ آکسیجن کی تکسید (oxidation)کرکے پانی تشکیل دیتے ہیں اور اس عمل کے نتیجے میں بجلی پیدا ہوتی ہے۔ فیول سیلزسےتیارکی جانےوالی بجلی کی لاگت 2021ء میں 1000 ڈالرسےکم ہوکراس وقت50ڈالرفی کلوواٹ ہوچکی ہےاورنئی ٹیکنالوجیزکی آمد کے بعد مسلسل اس کی لاگت میں کمی ہورہی ہے۔
فیول سیلزکاروں، بسوں، کشتیوں اور آبدوزوں کو چلانےکے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ امریکا میں جارجیاٹیک یونیورسٹی کے محققین نےکوئلےکو استعمال کرتےہوئےنئی قسم کےفیول سیلز تیار کیے ہیں۔ اس طریقہ کار میں پہلے کوئلے کو گیس میں تبدیل کیاجاتا ہے اور پھر اس کوفیول سیلز میں استعمال کیاجاتاہے ۔ نئےقسم کےفیول سیلزکی وجہ سےانتہائی سستی اور وافر مقدار میں بجلی مہیا ہونےکی اُمید ہے۔
برقی دوائیں
تقریباً تمام اقسام کی دواؤں کے بعض مضر اثرات ہوتے ہیں اور یہ اپنے ہدف کے علاوہ جسم کے دوسرے اعضا پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں، اس کی وجہ سے دی جانے والی دوا کی مقدار (خوراک) کو کم یا محدودکیا جاتا ہے۔ چنانچہ گر ان دواؤں کو اس طرح کنٹرول کر لیا جائے کہ صرف متعلقہ عضو پر ہی اثر انداز ہوں تو یہ انتہائی کارآمد طریقہ کارثابت ہو گا۔ اس حوالے سے ایک طریقے پر کام کیا جارہا ہے۔ اگر برقی طور پر کنٹرول کی جانے والی دوائیں تیار کی جائیں جو متاثرہ حصے میں پہنچ کر براہ راست اس پر دوا خارج کریں اور جسم کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر باہر نکل آئیں۔
یہ دوا Gastro intestinal بیماریوں مثلاً آنتوں کی سوزش ،سوجن اور کینسر کےلیے استعمال کی جاسکتی ہیں۔ اس دوا کو ایک مائیکرو پروسیسر سے کنٹرول کیا جائے گا جب کہ مرض کے درست مقام، pH اور دوا کو کب خارج کرنا ہے کے جائزے کا کام ڈاکٹر انجام دیں گے۔ دوا کے اندر ایک چھوٹا سا ریڈیو ٹرانسمیٹر نصب کر دیا جائے گا جو کہ معالج کے پاس موجود کمپیوٹر سے منسلک ہو گا جو دوا کی پوزیشن کے بارے میں بتائے گا اور اس کے ذریعے دوا کے متعلقہ مقام پر پہنچنے کے بعد دوا کا اخراج کر دیا جائے گا دوا پر Pill کے اندر چھوٹی سی موٹر بھی نصب ہوگی جو کہ ایک پسٹن کو چلائے گی جو گولی میں موجود چھوٹے سوراخوں سے دوا کا اخراج کریں گے۔ Pill جلد ہی تجارتی طور پرمارکیٹ میں موجود ہو گی۔
ٹوٹے ہوئے دل کی مرمت
دل کے دورے کے بعد دل کے متاثر ہ حصوں کے بعض ٹشوز ہلاک ہو جاتے ہیں۔ یہ ٹشوز عام طور پر ناقابل مرمت ہوتے ہیں، تاہم اسٹیم سیل کو استعمال کر کے یا دوسرے طریقوں سے ان ٹشوز کی مرمت کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔ اب براؤ ن یونیورسٹی کے انجینئرز، جو کہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
ماہرین نے اس نقصان کی مرمت کے لیے کاربن نینو فائبر اور ایک منظور شدہ پولی مر کا استعمال کیا ہے۔ یہ جوڑ جالی کی طرح بنا یا گیاہے جو اس کو نرمی دیتی ہے۔ چناں چہ اس کو دل کے اوپر رکھ کر پھیلایا اور سکیڑا جا سکتا ہے۔ جب اس کو دل کے متاثرہ ٹشوز پر لگایا جاتا ہے تو یہ برقی سگنل کو گزرنے دیتا ہے، کیوں کہ یہ بجلی کا بہت اچھا موصل ہے۔ اس پیوند کو دل کے خلیات (Cardiomyocytes)کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے جو کہ پیوند پر تیزی سے نمو پذیر ہو جاتے ہیں ۔اس کے ساتھ نیورونز کی نشوونما بھی ہوتی ہے۔ اب وہ وقت بہت دور نہیں ہے کہ سرجنز کے ہاتھ میں ٹوٹے ہوئے دل جوڑنے کا آلہ ہو گا۔
برقی میدان Electrical Field کے ذریعے دماغ کی رسولی کا علاج
دماغ میں بار بار ہوجانے والی رسولی (Recurrent Glioblastoma or GBM)کا علاج اب برقی میدان کے ذریعے کیا جارہا ہے۔ یہ نہ صرف رسولی کی نشونما کو روک دے گا بلکہ اس عمل کو الٹ بھی دے گا۔ اس نئے طریقہ علاج کو حال ہی میں FDA کی منظوری حاصل ہوئی ہے۔ اس طریقہ کار میں مریض اپنے سر پر تین کلوگرام وزنی آلے کو پہن لے گا اور پورادن اس کو اپنے سر پر پہنے رکھے گا۔اس دوران وہ اپنے روز مرہ کے معمولات بغیر کسی دشواری کے انجام دے سکتا ہے۔اس طریقہ علاج کے کئی فوائد ہیں۔
اس میں کیمو تھراپی کی طرح جسم کو کمزور کرنے والے اثرات مرتب نہیں ہوتے، جس سے بار بار اُبھرنے والی رسولی کے مریضوں کو گذارا جاتا ہے۔ Novocare نے ایک نئی قسم کاNon invasive طریقہ کارایجاد کیا ہے۔ اس میں مریض کی جلد کے اوپرپیڈ رکھ دیئے جاتے ہیں۔ اس کے بعد ٹیومر پر متبادل کم شدت والی برقی فیلڈ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں کینسر کے خلیات مزید تقسیم ہوئے بغیر ہلاک ہو جاتے ہیں اور یہ صحت مند خلیا ت کو نقصان نہیں پہنچاتے ہیں۔