• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جلیل قدوائی

اسکول میں چھٹی کا گھنٹہ بجا، اساتذہ نے اپنی اپنی جماعت کے بچوں کو قطار میں کھڑا کیا۔ بچوں نے اپنے اپنے بستے گلے میں لٹکائےاور لائنوں میں جا لگے، پھر خدا حافظ کہتے ہوئےقطار در قطار اسکول سے باہر نکلنے لگے۔ گیٹ کے باہر کچھ ٹھیلے والے کھڑے ’’آلو چھولے کی چاٹ ،دہی بڑے،مونگ پھلی، امرود، فالسےکی آوازیں لگا رہے ہیں۔ بچے ان ٹھیلوں چیزیں خریدنے لگے۔ ننھا بختیار بھی ایک ہاتھ سے اپنا بستہ سنبھالے فالسے کے ٹھیلے کے پاس رُک گیا۔ 

جیب سے بیس روپے ٹھیلے والےکو دیئے اور انگلی کے اشارے سے کہا ’’ فالسے دے دو۔‘‘ فالسے والے نے جو لہک لہک کر آواز لگانے میں مگن تھا بختیار کے ہاتھ سے پیسے لے کر اپنی گلک میں ڈالے اور گاتے ہی گاتے ایک پڑیا میں فالسے ڈالے، ان پر نمک چھڑکا، دو چار دفعہ پڑیا کو اچھالا اور بختیار کو دیتے ہوئے،لو منّے....‘‘ کہہ کر پکڑا دی اور پھر گانے میں مصروف ہوگیا۔ وہ گا رہا تھا ’’آؤ بچو! کھاؤ کالے کالے، اودے اودے، میٹھے میٹھے فالسے‘‘۔

بختیار کو اس کی امّی اسکول کے لئے لنچ باکس کے ساتھ کبھی کبھی بیس روپے دیتی تھیں کہ اس کا دل چاہے تو کوئی صاف ستھری چیز گھر پر لاکر کھالے ورنہ پیسے جمع کرکے اپنے لئے کوئی اچھی سی کہانیوں کی کتاب خرید لے۔ ننھا بختیار فالسے کی پڑیا مٹھی میں دبا گھر کی طرف چل دیا۔ گھر جاکر کتابوں کا بستہ مقررہ جگہ پر رکھا اور فالسوں کی پڑیا ماں کو دی، اپنی یونیفارم اور جوتے موزے اتارے، ہاتھ منہ دھو کر کھانا کھانے بیٹھا اور بڑے جوش سے سے کہا ’’امّی آپ نے فالسے کھائے؟ کتنے مزیدار ہیں نا‘‘۔

امّی نے کہا ’’فالسے کھانے سے پہلے میں نے انہیں دھویا اور پھر سے نمک چھڑکا ہے۔ بازار کے کھلے ہوئے فالسے تھے، نہ جانے صاف تھے یا نہیں ۔ کھانا کھا کر مَیں بھی کھا لوں گی، باقی تم کھانا۔ فالسے بہت فائدہ مند ہوتے ہیں صحت کے لئے، مگر صفائی ضروری ہے۔ تمہارا جی چاہے تو اپنے باغ کی کیاریوں میں اس کی گٹھلیاں بکھیر دینا۔ فالس کے پودے اُگ آئیں گے۔‘‘ بختیار کھانا ختم کرکے فالسے کھاتا جائے اور گٹھلیاں جمع کرتا جائے اور پھر اس نے انہیں اپنی کیاری میں ڈال دیں۔

کچھ دنوں بعد ایک ننھا سا پودا زمین سے نکلا۔ بختیار خوشی سے اچھل پڑا۔ دوڑ کر امّی کو بلالایا ’’امّی دیکھئے فالسے کا پودا نکلا ہے۔‘‘ امّی نے کہا ’’بیٹا! اب اس کی حفاظت کرنا، دھیان سے پانی دینا۔ مَیں کھاد اور میٹھی مٹی منگا کر ڈلواتی رہوں گی۔ بس پھر تمہارا یہ ننھا پودا جلدی سے بڑا اور پھل دار درخت بن جائے گا۔‘‘ بختیار ہر روز اسکول سے آکر دوپہر کو آرام کرنے کے بعد اپنے باغ میں اپنی ماں کے ساتھ پانی دیتا ،اسے بڑا ہوتے دیکھ کر جی ہی جی میں خوش ہوتا۔ ا رفتہ رفتہ وہ پودا بڑا ہوگیا، ایک روز اُس نے اپنے فالسے کے درخت میں بہت سے پیلے پیلے نازک سے پھول لگے ہوئے دیکھے۔ اس نے ان کا ذکر اپنے اسکول کے دوستوں سے کیا۔

اُن کو بھی دیکھنے کو جی چاہا۔ جب وہ بختیار کے گھر آئے تو پھول دیکھ کر بہت خوش ہوئے، انہوں نے ہاتھ بڑھا کر پھول توڑ نے کی کوشش کی ،مگر جیسے ہی بچوں کے ہاتھ درخت کی طرف بڑھے ایک آواز آئی جیسے کوئی درد بھری آواز سے کہہ رہا ہو ’’ہائے ظالم، مار ڈالا۔‘‘ بچّوں نے ڈر کراپنے ہاتھ پیچھے کر لئے اور ادھر اُدھر دیکھنے لگے کہ شاید کوئی آدمی بول رہا ہو،مگر جب کوئی نظر نہ آیا تو دوبارہ پھول توڑنے کے لئے اپنے ہاتھ بڑھائے، مگر پھر وہی آواز آئی، اب تو سب بچّے ’’بھوت بھوت‘‘ کہتے اپنے اپنے گھروں کو بھاگے۔ بیچارا بختیار اپنے گھر کے اندر بھاگا اور جاکر اپنی امّی کو سب حال بتا دیا۔

امّی باہر آئیں کہ دیکھیں کون بھوت ہے جو بچّوں کو ڈرا رہا ہے۔ امّی نے درخت کی طرف ہاتھ بڑھایا تو انہیں وہی آواز سنائی دی۔ وہ سمجھ گئیں کہ درخت کو اپنے پھولوں کے توڑے جانے کا درد ہے، انہوں نے بختیار کو سمجھایا ’’بیٹا! یہ بھوت کی آواز نہیں ہے بلکہ درخت کہہ رہا ہے کہ میرے پھول نہ توڑو،، کیونکہ پھولوں سے ہی تو فالسے بنیں گے۔‘‘ تھوڑے دنوں بعد اس نے درخت میں ہری ہری گٹھلیاں لگی دیکھیں تو اس نے اسکول میں اپنے دوستوں سے بتایا کہ میرے درخت میں بہت سے فالسے آرہے ہیں۔ 

اس کے دوستوں کو وہ پچھلا بھوت کا واقعہ کچھ یاد تو تھا ،مگر فالسے کھانے کے شوق میں وہ پھر بختیار کے گھرآگئے۔ ہاتھ بڑھا کر فالسے توڑنا ہی چاہتے تھے کہ پھر وہی دردناک آواز سنائی دی ’’ہائے ظالم، مار ڈالا۔‘‘ ’’اوہو...‘‘ بچوں کو اب پوری طرح یقین ہوگیا کہ فالسے کا درخت میں بھوت ہے۔ وہ سب وہاں سے بھاگے۔ بختیارماں کے پاس آیا اور کہا ’’امّی سچ کہہ رہا ہوں فالسے کے درخت میں بھوت رہتا ہے۔ ابھی پھر سے آواز آئی تھی۔‘‘ 

امّی اپنی ہنسی روکتی جائیں اور پتّوں اور کو ہٹا کر دیکھنا چاہتی تھیں کہ کون بھوت ہے۔ امّی کا ہاتھ بڑھتے دیکھ کر درخت سمجھا وہ بھی اس کے فالسے توڑنے آگئیں ۔ پھر اس میں آواز آئی ’’ہائے ظالم، مار ڈالا۔‘‘ امّی سمجھ گئیں اور کہنے لگیں ’’دیکھو، یہ بھوت کی آواز نہیں ہے۔ یہ درخت نہیں چاہتا کہ اس کا کچا پھل توڑا جائے۔ جب پک جائے تو کھانا۔ اسی لئے یہ بیچارہ اس طرح کہہ رہا ہے۔‘‘ بختیار کچھ سمجھا کچھ نہ سمجھا ،مگر چپ ہوگیا۔

کوئی پندرہ دن کے بعد ایک صبح اسکول جانے سے پہلے اُس نے دیکھا کہ اس کے فالسے کا درخت بڑا حسین نظر آرہا ہے۔ ہری ہری پتیوں کی آڑ سے ڈالیوں میں لگے ہوئے اودے اودے کالے کالے فالسے جھانک رہے تھے اور پھولوں سے لدی ہوئی ڈالیاں خوشی سے جھوم رہی تھیں۔ اس نے سوچا کہ بس اب اپنے دوستوں کو فالسے ضرور کھلاؤں گا اور خود بھی کھاؤں ۔ اسکول سے واپسی پر وہ اپنے دوستوں کو ساتھ لایا۔ 

بچے کہنے لگے ’’بھئی تمہاے درخت میں تو بھوت ہے۔ ہاتھ نہیں لگانے دیتا۔ ہم کیسے فالسے کھائیں گے؟‘‘ یہ کہتے گئے اور ہاتھ بڑھا کے فالسے توڑنے لگے، مگر اس بار درخت سے بڑی پیار بھری آواز آرہی تھی ’’آؤ بچو! کھاؤ میرے کالے کالے، اودے اودے، میٹھے میٹھے فالسے۔ اس روز سب بچوں نے بختیار کے ساتھ مل کر خوب مزے لے لے کرفالسے کھائے، اُنہوں نے فالسے کھانے کے بعد اس کی گھٹلیاں جمع کر لیں، تاکہ وہ بھی یہ بیج اپنے گھر میں بوئیں گے۔