سب سے پہلے دنیا بھر کے ان خوش نصیب انسانوں کو دِل کی گہرائیوں سے مبارکباد جورواں سال سرزمین حجاز میں فریضہ حج کی ادائیگی کرکے عید الضحیٰ کی خوشیاں منارہے ہیں، بے شک خداکے در پر حاضری دینا ہر ایک کی دِلی خواہش ہوا کرتی ہے لیکن یہ موقع صرف ان خوش قسمتوںکو ملتا ہے جنہیں خود مالک بلاوہ بھیجتا ہے، میرا ماننا ہے کہ جب اوپرآسمانوں پر فیصلہ ہوجاتا ہے تو زمین پر ازخودعملدرآمد کیلئے راستے بنتے چلے جاتے ہیں۔حالیہ دنوں میں دو افسوسناک خبریں بھی منظرعام پر آئیں جنہوں نے مجھ جیسے حساس دل رکھنے والوں کو رنجیدہ کر دیاہے۔ملکی حالات سے دلبرداشتہ پاکستانی تارکین وطن کے یورپ میں بہتر مستقبل کے خواب یونان کے گہرے پانیوں میں غرق ہوجانا ایک قومی سانحہ ہے، میڈیا اطلاعات کے مطابق لیبیا سے اٹلی جانے والی کشتی میںگنجائش سے دُگنا سات سو افراد سوار کیے گئے تھے جن میں ساڑھے تین سو کے قریب پاکستانی بھی تھے، زندہ بچ جانے والے بارہ پاکستانی مسافروں کی جانب سے فراہم کردہ تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ معصوم لوگوں کو سنہرے مستقبل کا خواب دِکھا کر موت کے راستے پرروانہ کرنے والے انسانی اسمگلروں کا مافیا پاکستان میں روزبروز طاقتورہوتا جارہا ہے ، اس المناک سانحے نے مجھے تین سال قبل جولائی 2020ء کا شائع کردہ اپنا ایک کالم بھی یاد دلا دیا جب میں نے ترکی اور ایران کی سرحد پر واقع وان جھیل میں کشتی ڈوبنے کے باعث پچاس سے زائد غیرقانونی تارکین وطن کے ہلاک ہونے پراظہارِ افسوس کرتے ہوئے تحریر کیا تھا کہ غیرقانونی طور پر دوسرے ملک میں بدنامی کا باعث بننے سے بہتر ہے کہ اپنے وطن میں عزت سے دال روٹی کھائی جائے، انسانی اسمگلروںکو قانون کے کٹہرے میں لاکر سخت کڑی سزائیں دی جائی ،لوگوں کو غیرقانونی تارکین وطن کے عبرت ناک انجام سے سبق حاصل کرنا چاہیے اوروہ اپنے پیاروں کو موت کے منہ میں جانے سے روکیں۔گزشتہ دنوںٹائٹن نامی آبدوز کی بحیراوقیانوس میں غرق آب ہونے کی خبر نے دنیا بھر کے عالمی میڈیا پر ہلچل مچا دی، دنیا کے پانچ امیر ترین افراد ایک سو دس سال قبل ڈوبنے والے مشہور ٹائی ٹینک بحری جہاز کی سمندر کی تہہ میں باقیات کا نظارہ کرنے گئے تھے،زیرآب آبدوز کے وقت پر واپس نہ پہنچنے پرریسکیو آپریشن شروع کردیا گیا، دنیا کے جدید سائنسی آلات سے لیس مختلف ممالک کے بحری جہازوں اور فضائی طیاروں نے شمالی بحر اوقیانوس کا سینکڑوں کلومیٹر رقبہ چھان مارا لیکن لا پتہ آبدوز کا سراغ لگانے میں ناکام رہے اور آخرکار بدقسمت سیاحوں کی پُراسرار موت کا باضابطہ اعلان کردیا گیا۔ آبدوز حادثے میں جان کی بازی ہارنے والوں میںپاکستان کی امیر ترین کاروباری فیملی داؤد سے تعلق رکھنے والے اینگرو کمپنی کے وائس چیئرمین شہزادہ داؤد اور انکے انیس سالہ صاحبزادے سلمان داؤد بھی شامل تھے۔یونان میں کشتی کے حادثے کے تناظر پر جب میں نے سوشل میڈیا پر کچھ ناسمجھ لوگوں کو داؤد فیملی کی امارت کے حسد کے باعث نامناسب پوسٹس کرتے دیکھا تو میں نے ضروری سمجھا کہ میں بھی اپنے خیالات کااظہار کروں۔ میری نظر میں داؤد فیملی کا شمار پاکستان کے ان چند بڑے کاروباری گھرانوں میں ہوتا ہے جو خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشارہیں، تقسیم ِ ہندکے بعد داؤد فیملی نے جب پاکستان کو اپنا وطن بنایا تو خدا نے انہیں دن دُگنی رات چوگنی ترقی سے نوازا، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد انہوں سے وہاں سے بھی سارا کاروبار کراچی منتقل کرلیا، داؤد فاؤنڈیشن کے ذریعے سماجی اور فلاحی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے تعلیم سے محروم بچوں کیلئے مفت تعلیم کیلئے بندوبست کیا، مختلف تعلیمی اداروں اورطلبا و طالبات کی رہائش کیلئے ہوسٹلز کو امداد فراہم کیں۔تین سال قبل کورونا کی عالمی وبا پھوٹی تو شہزادہ داؤد کے والداور داؤد ہرکولیس کمپنی کے چیئرمین حسین داؤد نے صحت کے شعبے میں وبا کامقابلہ کرنے کیلئے تین ملین پاؤنڈ کے مساوی رقم فراہم کی۔ پاکستان میں پیدا ہونے والے شہزادہ داؤد ملک کے بڑے ادارے اینگرو کارپوریشن کے وائس چیئرمین کے عہدے پر فائز تھے، انسانیت کا درد رکھنے والے شہزادہ داؤد کیلی فورنیا میں قائم ایک ریسرچ انسٹیٹیوٹ سیٹی کے ٹرسٹی اور فلاحی ادارے دا پرنسز ٹرسٹ گلوبل کے بورڈ ممبر بھی تھے۔ داؤد ہرکولیس میں کام کرنے والے ملازمین کا کہنا ہے کہ دفتری معاملات میں اعلیٰ اخلاقی اقدار پر عمل پیرا داؤد فیملی کے عہدے داران ہمیشہ اپنے ملازمین کی پرخلوص دعاؤں کا حصہ رہے ہیں، وہ اپنے ادارے کے ملازمین کو پرکشش سیلری پیکیج، مفت کھانا اور میڈیکل سہولیات کیلئے آگے آگے رہے، ہر ماہ قرعہ اندازی کے ذریعے ملازمین کو مفت عمرے کیلئے بھیجنا اور ہر سال لاہورکے شاندار ہوٹل میں تمام ایمپلائیز کے اعزاز میںتقریب کے بعدخوش قسمت افراد کو انکی اہلیہ یا والدہ کے ساتھ حج پر بھیجنا اس کمپنی کا معمول ہے۔ سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی میںلاکھوں بیماروں کے گردوں کا عالمی معیار کا علاج یقینی بنانے کیلئے داؤد فیملی کی طرف سے سالانہ بھاری فنڈز عطیہ کئے جاتے ہیں،اس طرح کی ایسے بے شمار فلاحی سرگرمیوں کی کامیابی کا رازملکی معیشت کے استحکام میں اپنا حصہ ڈالنے والی داؤد فیملی کی جانب سے فراخدلانہ امداد کی فراہمی ہے۔ آج میں عید کے مقدس دن کے موقع پر کشتی حادثے کا شکار ہونے والے اورداؤد فیملی سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہنا چاہوں گا کہ کسی انسان کو اسکی دولت یا غربت کے باعث تنقید کا نشانہ بنانا نہایت قابل مذمت اقدام ہے، جب مالک کا بلاوہ آتا ہے تو وہ خود بخود اس جگہ پرپہنچ جاتا ہے، ایک طرف یونان میں نامناسب سہولیات کو کشتی حادثے کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے تو دوسری طرف جدید آبدوز اور اسکی تلاش میںناکامی اس امر کی گواہ ہے کہ جب اوپرآسمانوں پر فیصلہ ہوجاتا ہے تو زمین پر بسنے والے تمام تر دولت، اختیاراور ٹیکنالوجی کے باوجود بے بس ہوجاتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)