اُردو کے پہلے ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد ہیں۔ ان کے مشہور ناول ’’مراۃ العروس‘‘ اور ’’توبۃ النصوح‘‘کو اصلاحی ناول کہا جاتا ہے۔ ’’مراۃ العروس‘‘ پر پی ٹی وی نے کامیاب ڈراما پیش کیا تھا۔ اُردو کی معروف اَدیبہ زاہدہ حنا ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ اُردو کی پہلی خاتون ناول نگار رشیدۃ النسا ہیں۔ وہ جنگِ آزادی سے چار سال قبل 1853ء میں پٹنہ، صوبہ بہار میں پیدا ہوئیں۔ 1949ء میں انتقال ہوگیا۔ وہ بھی خواتین کے حوالے سے اصلاحی ناول لکھا کرتی تھیں۔ انیسویں صدی میں شاید ہی کوئی مسلمان لڑکی اسکول جاتی ہوگی۔ رشیدۃ النسا نے گھر پر تعلیم حاصل کی۔
ہمارے اُردو اَدب کے نقّادوں نے خواتین لکھاری کو دو گروپ میں تقسیم کر دیا ہے۔ وہ ان خواتین کو اَدیبہ سمجھتے ہیں جو دقیق الفاظ میں فلسفے کے ساتھ ناول لکھتی ہیں۔ اس مخصوص طرز تحریر کو پڑھنا اور سمجھنا عام قاری کے لیے آسان نہیں ہوتا، یعنی اپنا لکھا آپ سمجھیں یا خُدا سمجھے۔
قرۃ العین حیدر، اُردو اَدب کا اہم نام ہے۔ ان کے ناول ’’آگ کا دریا‘‘ کو اہم ناول کہا گیا ہے۔ بنیادی طو پر اس ناول کا مرکزی خیال تقسیم ہند ہے۔ ’’کارِ جہاں دراز ہے‘‘ میں ایک جگہ لکھتی ہیں، میں نے ’’آگ کا دریا‘‘ سے وہ غیرضروری اجزا نکال دیئے ہیں جن پر لوگوں کو اعتراض تھا۔ ایک اُردو کی پروفیسر خاتون نے مجھ سے کہا کہ ’’آگ کا دریا‘‘ ہم سے نہیں پڑھا گیا۔ ہم نے اسے دو بار پڑھا۔ تقسیم ہند کے پس منظر میں اے آر خاتون کا ناول ’’چشمہ‘‘، ’’آگ کا دریا‘‘ سے پہلے شائع ہوا۔ ’’چشمہ‘‘ میں تقسیمِ ہند کے نتیجے میں دہلی کے فسادات اور لاہور میں مہاجروں کے حالات کا ذکر ہے۔
اے آر خاتون دہلی میں پیدا ہوئیں۔اکلوتی اولاد تھیں۔ اُنھوں نے بھی رشیدۃ النسا کی طرح گھر پر تعلیم حاصل کی۔ ان کا اصل نام اُمت الرحمٰن ہے مگر وہ اے آر خاتون کےنام سے مشہور ہوئیں۔ کسی کتاب پر ان کا مکمل نام نہیں تھا، سو ہم ان کے نام پر بحث کرتے اور اے آر سے ہر نام ان سے منسوب کرتے۔ میری خالہ مرحومہ کے پاس ان کی تینوں کتابیں تھیں۔ ہم تیرہ سال کی عُمر میں یہ کتابیں پڑھ چکے تھے۔ قرۃ العین حیدر لکھتی ہیں: ’’میری سمجھ میں نہیں آتا علی گڑھ یونیورسٹی میں لڑکیاں ’شمع‘ ناول برقعہ میں چھپا کر یونیورسٹی لاتیں اور پڑھتیں۔ اس میں ایسی کیا بات ہے۔‘‘
شمع اور افشاں نام اے آر خاتون کا عطیہ ہے۔ ان کے ناول کی وجہ سے معاشرے میں یہ نام مقبول ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور منتقل ہوگئیں۔ دو بیٹے اور تین بیٹیوں کی ماں تھیں۔ ان کی ایک صاحب زادی زبیدہ خاتون بھی ماں کی طرح ناول نگاری کی طرف آئیں۔ ’’عروسہ‘‘ ان کا مشہور ناول ہے،اس پر پی ٹی وی نے کامیاب ڈراما پیش کیا۔ اے آر خاتون ناول ’’فاکہہ‘‘ تحریر کرنے کے دوران 1964ء میں انتقال کر گئیں۔ اس ناول کو زبیدہ خاتون نے مکمل کرکے شائع کروایا۔
اے آر خاتون کی،روانی،سادگی، دہلی کے محاوروں سے مزین زبان لکھنا ان پر ختم ہے۔ یہ خوبیاں ان کی تحریر میں اس لیے نہیں ہیں کہ وہ دہلی کی تھیں، یہ سب ان کے وسیع المطالعہ ہونے کا کمال ہے۔ مالٹا ملک کا نام میں نے ’’افشاں‘‘ سے جانا۔ پہلی بار یہ مصرعہ اور شعر’’افشاں‘‘ میں پڑھا:
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ
………
دیکھا تھا کبھی خواب سا معلوم نہیں کیا
اب تک اثرِ خواب ہے معلوم نہیں کیوں
جن واقعات کو تاریخ داں نظرانداز کر جاتے ہیں اسے اَدیب لکھتا ہے۔
اگر کسی کو یہ معلوم کرنا ہو کہ بیسویں صدی میں متحدہ ہندوستان کا معاشرہ کیسا تھا ؟خصوصاً دہلی اور اس کے اِردگرد کے علاقے کی تہذیب و تمدّن کا کیسا معیار تھا، آج کی نسل تو شاید ان کو سمجھ بھی نہ سکے۔ اس کو جاننے کے لیے ان کی تصانیف کو پڑھنا چاہیے۔ خاندان میں ریشہ دوانیاں، رشتہ داروں کی چپقلش اس طرح کی تمام اُلجھنوں کا ذکر اور انھیں سنوارنے کا طریقہ بہت سادگی سے بیان کیا ہے۔ دِلّی اور لکھنؤ کی چشمک کا بھی خُوب صورت انداز میں ذکر کرتی ہیں۔ ’’چشمہ‘‘ ناول کی ہیروئن کی والدہ کی شادی لکھنؤ میں ہوئی، لکھنؤ کی ایک خاتون شادی پر تبصرہ کرتی ہیں: ’دلّی میں رشتہ کرنے سے بہتر تھا پنجاب میں رشتہ کیا جائے۔‘ اَدبی طور پر بھی لکھنؤ اور دلّی کی چشمک مشہور ہے۔ ’’شمع‘‘، ’’افشاں‘‘ اور ’’تصویر‘‘ ان کے مشہور و مقبول ناول ہیں۔
ان تینوں ناولوں پر پی ٹی وی نے کامیاب ڈرامنے پیش کیے۔ جن دنوں یہ ڈراما ٹی وی پر آ رہا تھا، دوبارہ یہ ناول شائع ہوئے۔ لوگوں نے خرید کر پڑھا۔ اے آر خاتون کی حسِ مزاح بھی بہت نفیس تھی۔ میرا خیال تھا کہ اے آر خاتون صرف خواتین میں مقبول ہیں لکین میں نے اکثر مرد حضرات کو بھی ان کے ناول پڑھتے دیکھا۔ جنرل (ر) معین حیدر نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ جب وہ کیپٹن تھے تو ’’افشاں‘‘ پڑھا تھا۔ اے آر خاتون نے اس زمانے کے غلط قسم کے رسم و رواج، جادُو ٹونہ، بدگمانی، حسد وغیرہ کا انجام بھی دکھایا اور ان باتوں سے اجتناب کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ یہ سب کردار کے ذریعہ اُجاگر کیا ہے۔ اُنھوں نے بچّوں کے لیے بھی کہانیاں لکھیں۔ ایک کتاب کا نام یاد ہے ’’سات خالائیں‘‘ اور شاید ’’سہیلیاں‘‘ وغیرہ بھی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے ناول میں سوتیلی ماں کا کردار بھی ہوتا ہے۔
’’افشاں‘‘ میں سوتیلی ماں کا کردار منفی ہے۔ مگر ’’شمع‘‘ میں سوتیلے بھائیوں میں محبت بھی دکھائی۔ ان کے ناول ’’فاکہہ‘‘ میں معذور سوکن کی خدمت کرتی ہیں (شوہر کے انتقال کے بعد بھی)۔ سوکن کے بیٹے کو اپنے بیٹے سے زیادہ اہمیت دیتی ہیں، ڈاکٹر بناتی ہیں، اس کردار سے ان کی اِنسانی محبت اور وسیع القلبی کا اندازہ ہوتا ہے۔
اَدبی گروہ بندی نے قابل ذکر ادیبوں اور شاعروں کے کام کو دُھندلا دیا ہے۔ اے آر خاتون بھی اس دُھند میں گم ہوگئیں۔ ان کے بعد پاکستانی خواتین میں ناول نگاری کا رُجحان بڑھا۔
خواتین ناول نگار کے حوالے سے دلچسپ بات نظیر صدیقی نے بتائی کہ مشفق خواجہ مرحوم نے بھی خواتین کےنام سے چند ناول تحریر کیے۔ نظیر صاحب نے پوچھا آپ اپنے نام سے کیوں نہیں لکھتے، کہا خواتین کے نام سے کتابیں زیادہ بکتی ہیں۔ ہم نے ایسی خُوب صورت طرز تحریر لکھنے والی اَدیبہ کو کتنے آسانی سے فراموش کر دیا۔
نقّاد حضرات نے اے آر خاتون کی طرف توجہ نہیں دی۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ گھریلو انداز کےلکھے ہوئے ناول کو اَدبی ناول نہیں کہا جا سکتا۔ یہ منطق سمجھ سے باہر ہے۔ خدیجہ مستور اور حاجرہ مسرور کی ابتدائی کہانیاں پڑھیں،وہ بھی گھریلو انداز میں لکھا کرتی تھیں۔ اگر ہم نے ایم۔اے کیا ہوتا تو اے آر خاتون پر ضرور پی ایچ ڈی کرتے۔ اگر ٹی وی ڈراما ’’آنگن ٹیڑھا‘‘ پر ایم فل کیا جا سکتا ہے تو اے آر خاتون پر کام کیوں نہیں ہو سکتا؟ اکیڈمی اَدبیات کو اے آر خاتون کی تصانیف کو اَدبی ورثہ کے طور پر محفوظ کر لینا چاہیے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی