تحریر: ابرار میر۔۔۔۔۔ لندن پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 05جولائی سیاہ باب ہے کہ جس کے کالے دھبے مٹتے ہی نہیں اور شاید صدیوں یہ دن یوں ہی اپنی خوفناک اور ہولناک یاد دلاتا رہے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک معجزہ تھا جو آیا، اس نے دیکھا اور فتح کرلیا، وہ فخر ایشیا اور قائد عوام اس دور میں بنے جب پاکستان میں مارشل کے بعد مارشل لا اور ماشااللہ لمبے لمبے عرصے کیلئے بنیادی حقوق کی پامالی، اب ایسے گھٹن اور ظلم کے دور میں زرا سی بات بھی بڑی اچھی لگتی ہے لیکن ذوالفقار علی بھٹو کا جمہوری اور عوامی انداز میں آنا اور غریب کی ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی سے لے کر دنیاکے بڑے بڑے ایوانوں میں اس کا نام بولنے لگا اور وہ حقیقی عوامی لیڈر بن گیا،ذوالفقار علی بھٹو شہید کا سب سے بڑا کارنامہ ہماری قوم کیلئے جمہوریت لانا تھا کہ جس سے بے آواز عوام کو مضبوط آواز مل گئی، ذوالفقار علی بھٹو مضبوط اعصاب کا دور اندیش ایسا لیڈر تھا کہ جس کے بارے میں امریکی نائب صدر نیلسن راکفلر (Nelson Rockefeller) نے ذوالفقار علی بھٹو کے معنی بتائے، اس نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو ڈیموکریٹس کے نیویارک سے امیدوار نہیں ہیں، اس کا مطلب یہ تھا کہ پھر وہ ذوالفقار علی بھٹو سے شکست کھا جاتا، وہ کہتا ہے کہ کئی سیاستدان بڑے لیڈر نہیں ہوتے اور کئی بڑے لیڈر اچھے سیاستدان نہیں ہوتے لیکن میں نے ذوالفقار علی بھٹو کو ان دونوں خوبیوں کا کمال مجموعہ دیکھا ہے یعنی یہ دونوں چیزیں ذوالفقار علی بھٹو میں بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں جب کہ ایسا بہت کم ہوتا ہے، کبھی کبھی یہ سوچ بھی آتی ہے کہ 05جولائی جیسا بھیانک دن نہ ہوتا تو پھر چار اپریل بھی نہ آتا اور اگر چار اپریل نہ آتا تو شاید بھٹو ،بھٹو نہ بن پاتا، بس یہ نصیب کی بات ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اصولوں پر پھانسی جھول گیا اور اپنا نام تب و تاب جاودانہ کرگیا، اسی پھانسی اور جمہوریت کے قتل کی سیاسی کوک سے بہادر بینظیر بھٹو نے جنم لیا اور پھر پنڈی کی سڑکوں پر لگی گھات نے ایک بار پھر پاکستان کو نظریاتی طور پر توڑا، یہ کمال بہادری صرف ذوالفقار علی بھٹو خاندان کی سرشت میں ہی ہے کہ عوام کو دیکھ کر ایسے خوش ہوتے ہیں کہ جیسے کسی مجنوں کو اس کی لیلا مل گئی ہو اور مجنوں اپنی لیلا کی خاطر موت کو بھی گلے لگانے کو تیار ہوجاتا ہو، نئی نسل نے ذوالفقار علی بھٹو اور شہید رانی محترمہ بینظیر بھٹو تو نہیں دیکھے لیکن بلاول بھٹو نے جس طرح ڈوبتے ہوئے پاکستان کو بچایا تو شاید نئی نسل ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو شہید کو سمجھنا شروع کردے گی بلاول بھٹو نے جب سے اپنے نانا کی طرح وزارت خارجہ میں تاریخی نتائج حاصل کرنا شروع کئے ہیں تب سے ہر مخالف بھی بلاول بھٹو کو آئندہ کا وزیراعظم کہنے لگا کہ نوجوان بلاول نے تو دھاک بٹھا دی لیکن میری نظر میں ایسا نہیں ہے بلکہ بلاول بھٹو زرداری نے ایک لمبے عرصے کے لیڈرشپ کے فقدان اور خلا کو معجزاتی طور پر اسی طرح دور کردیا کہ جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔ پاکستان معاشی گرداب کی دلدل میں پھنس چکا تھا اور پھر سونامی جیسے سیلاب نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تو یہ نوجوان ایک ایسے جزبے اور سیاسی بصیرت سے آگے بڑھا کہ جیسے وقت اور دنیا اسی کے انتظار میں تھے اور پاکستان قیادت اور جمہوریت کی بنجر زمین بن چکا تھا مگر اب ہم عوامی دور کی نہ صرف خوشبو سونگھ رہے ہیں بلکہ اک جمہوری اور عوامی دور کو ہرطرف آتا ہوا بھی دیکھ رہے ہیں، بلاول بھٹو بس جاتا ہے عزت اور تدبر سے بات کرتا ہے اور پاکستان کا حق اور مقام لیتا ہے، پاکستان نہ صرف جغرافیائی بلکہ دو بار نظریاتی طور پر بھی ٹوٹا لیکن جب جب مارشل لا آیا تو اس کے بعد صرف اور صرف پیپلزپارٹی کو ہی حکومت ملی کہ وہ آمریت کا مقابلہ بھی کرتی رہی اور مارشل لائی ادوار کے بعد ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی صلاحیت بھی صرف پیپلز پارٹی میں ہی ہے، اب کی بار مارشل تو نہیں آیا لیکن ملک میں بغاوت ضرور ہوئی جس کا سر کچلا گیا ورنہ پھر 1971سے بھی بڑا کھیل کھیلا جانا تھا اور یہ بھی ہوگیا کہ قوم کو بلاول بھٹو ایک بڑے لیڈر کے طور پر مل گیا، پاکستانی عوام کو اس لیڈر کی نہ صرف قدر کرنی چاہئے بلکہ ایسے قومی خزانے کی حفاظت بھی ہم سب پر فرض ہے کہ قومیں بغیر لیڈر کے کچھ نہیں اور لیڈر بغیر قوم کے کچھ نہیں۔