• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دونوں درست ہیں لیکن مفہوم میں فرق ہے۔ غَنا (غ پر زبر)کا مطلب ہے دولت مند ہونے کی کیفیت ، احتیاج نہ ہونے کی حالت، ضرورت سے آزادی۔ اقبال کا مصرع ہے :

تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال ِفقر و غَنا نہ کر

جبکہ غِنا (غ کے نیچے زیر) سے مراد ہے : گیت، نغمہ۔اسی سے غِنائی ، غنائیہ اور غنائیت کے الفاظ بنے ہیں۔ غِنائیت یعنی نغمگی۔

٭…لِقا یا لَقایا لَقّا؟

تینوں درست ہیں ، لیکن مفہوم میں فرق ہے۔ اسٹین گاس کے مطابق لَقا (لام پر زبر ) فارسی کا لفظ ہے اور یہ ایک قسم کا کبوتر ہوتا ہے۔کبوتر کے مفہوم میں اسٹین گاس نے اس کا ایک تلفظ ’’ق‘‘ پر تشدید کے ساتھ بھی لکھا ہے ، یعنی لَقّا۔

لیکن لِقا (لام کے نیچے زیر ) عربی کا لفظ ہے۔ اس کا مفہوم ہے: ملاقات ، دیدار۔راجیشور راو اصغر نے لِقا کے معنی لکھے ہیں : ملاقات ، چہرہ۔ اسے مؤنث بتایا ہے اور اس کی سند میں ناصر نامی کسی شاعر کا یہ شعر دیا ہے:

خدا کے فضل سے چونکے نصیب سوتے میں

لِقائے یار مجھے خواب میں نصیب ہوئی

بظاہر یہ لگتا ہے کہ اس شعر میں’’ لِقا‘‘ دیدار یا ملاقات ہی کے مفہوم میں ہے۔

البتہ اسٹین گاس نے لِقا کو عربی کہا ہے اور اس کے معنی لکھے ہیں : چہرہ ، شکل ، شباہت۔ اس کا استعمال اردو اور فارسی میں چہرہ یا شکل و صورت کے مفہوم میں ہے ، گو اردو میں یہ اکیلا نہیں آتا اور مہ لِقا یا ماہ لقا کی ترکیب میں مستعمل ہے۔ ماہ یا مہ چاند کو کہتے ہیں لہٰذا ما ہ لقایا مہ لقا کا مطلب ہے چاند سے چہرے والا یا والی۔ اور مراد ہے بہت حسین۔ ذوق کا شعر ہے :

منھ ہے کیا جو رنگ سے مہتاب کے ہم تاب ہو

غازے سے ہر چند چمکے رنگ ِ رُوئے مہ لقا

اسٹین گاس نے حور لقا(لام کے نیچے زیر ہے لیکن اس میں رے کے نیچے زیر یعنی اضافت نہیں ہے )کے معنی دیے ہیں حور جیسے چہرے والا ، یعنی بہت حسین۔ خورشید لِقایعنی سورج جیسے چہرے والا، مرادہے بہت روشن یا حسین۔ اسٹین گاس نے یہ بھی لکھا ہے کہ عربی میں آخر میں ہمزہ کے ساتھ ہے یعنی : لِقاء۔ اور معنی ہیں ملاقات یا سامنا۔