تخلیق کائنات کے ساتھ ہی کہانی نے جنم لیا۔
فنونِ لطیفہ کی ہر صنف کسی نہ کسی کہانی کے زیر اَثر رہتی ہے۔ غزل، نظم، ڈرامہ، سنگ تراشی، مصوّری،غرض کہ ہر فن کی تخلیق کی بنیاد کہانی پر ہوتی ہے۔ زندگی کے ساتھ سو دُکھ ہیں، کچھ لوگ دُکھ کے کام آ جاتے ہیں، کچھ لوگ اپنے دُکھوں سے کام لیتے ہیں اور اپنی ذات کے اظہار کے لیے مختلف سمتوں میں بٹ جاتے ہیں۔
اتنی پُرانی دُنیا میں نئی بات کہنا اور خود کو منوا لینا آسان نہیں۔ ہر بات کہی سُنی لگتی ہے۔ سارے دُکھ جانے پہچانے لگتے ہیں،پھر بھی اپنی بات کہنے کا سلسلہ جاری ہے۔
تنقید میں سب سے زیادہ کام شعری اَدب پر ہوتا رہا ہے۔ افسانے کی طرف کسی نے سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ یُوں افسانہ لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی بہتر انداز میں نہ ہو سکی۔ اس سلسلے میں نہ جانے ہمارے نقّاد کسی نفسیاتی خوف میں مبتلا تھے یا اس میں ان کی علمی اور عملی دُشواریوں کو دخل تھا۔ نقّادوں کے اس طرزعمل کی بنا پر پُرانے لکھنے والے اَدبی اُفق سے اوجھل ہوتے گئے۔ ممتاز شیریں اَدب اُردو میں ایک اہم نام ہے، وہ اَدبی دُنیا میں شہرت کے دروازے سے داخل ہوئیں اور گمنامی کی کوٹھری میں بند ہوگئیں۔
ایک مدّت سے لکھنا ترک کر چکی تھیں، اب تو دُنیا ہی چھوڑ گئیں۔ چند دُوسرے نام جو رفتہ رفتہ اَدبی دُنیا سے غائب ہوگئے ان میں سے ایک نام، تسنیم سلیم چھتاری کا بھی ہے۔ وہ جب تک لکھتی رہیں، لوگ پڑھتے رہے۔ ان کی مقبولیت اور شہرت میں ان کے حُسنِ تحریر کا حصّہ تھا۔ وہ اپنے مخصوص اندازِ تحریر کی وجہ سے ہر عُمر کے لوگوں میں قابلِ احترام رہیں۔ ادبی دُنیا میں تازہ ہوا کی مانند داخل ہوئیں اور لوگوں کو مسحور کر گئیں۔
بنیادی طور پر تسنیم سلیم چھتاری رُومانی افسانہ نگار ہیں لیکن ان کی رُومانیت تھکن میں اضافہ نہیں کرتی۔ ان کے یہاں زندگی کے معصوم دور کے اَنجانے دُکھوں، محبت کی اَن کہی کہانیوں، حُسن کی نزاکتوں اور قباحتوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ عورت ہونے کے ناتے وہ زندگی کے گرد چکر کاٹتی ہوئی نفسیاتی اور معاشرتی اُلجھنوں کو نفاست سے پیش کرتی ہیں۔ اُسلوب رُومانی ہونے کے باوجود حقیقت پسندانہ ہے لیکن اس کے باوجود ان کے یہاں روایت سے بغاوت کا جذبہ نہیں ملتا۔ ان کے افسانوں کے کردار باغی ہیں نہ مضطرب، شیطان ہیں نہ فرشتہ۔ زندگی کی طرف ان کا رویہ ایک نارمل اِنسان کا ہے (آج کل افسانوں میں نارمل کردار غائب ہوتا جا رہا ہے)۔ مسکراتے ہوئے دُکھ سہنا اور دُکھ کو سب سے بڑی خوشی بنا لینا، یہ سب کچھ زندگی بسر کرنے کے لیے توانائی عطا کرتا ہے۔
تسنیم سلیم چھتاری نے اپنے قلم کو کسی نظریے کا پابند نہیں بنایا،اُنھوں نے زندگی کو اپنی آنکھ سے دیکھا، اپنے طور سے سمجھا،وہی کچھ لکھا جو ان کے تجربے اور مشاہدے میں آیا۔ ان کا اُسلوب منفرد رہا۔ ان کی طرز خود ان کی ایجاد تھی۔ خُوب صورت اشعار ان کی کہانی کا عنوان بنے، مثلاً: ’’دیس سے آنے والے بتا‘‘، ’’تیرے لہجے کی تھکن یاد آئی‘‘۔
تسنیم سلیم چھتاری نے جیسا بھی لکھا، اپنا لکھا۔ ان کی تحریر پر دُوسرے مصنّف کی پرچھائیاں نہیں ہیں،جوان کی شخصیت کا عکس ہے۔
خُدا کا شکر ہے کہ ان کے حُسنِ تخیّل نے انھیں دانشور بنانے سے بچا لیا ورنہ کیسے کیسے لوگ دانشور بننے کے چکر میں سُوکھ کررہ گئے ہیں۔انہوں نے اپنے دور کے قارئین کی ذہنی اور رُوحانی تربیت کی، جذبوں کی پہچان اور رشتوں کا احترام کرنا سکھایا۔زندگی کے سفر میں سخت مقامات پر بھی تہذیب و شائستگی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
دُکھ سُکھ دونوں میں دلکشی اور وقار ہے۔ وہ ایک سچّے فنکار کی طرح زندگی کی کہانی سُناتی ہیں۔ ان کی کہانی کا اختتام، ستار کی آخری خاص دُھن ہوتی ہے جو دیر تک رُوح میں گونجتی رہتی ہے۔ ان کے افسانے کی فضا میں اُبھرتی ڈُوبتی چاندنی کا احساس ہوتا ہے، جو کبھی کبھی دُھند کے نیچے ڈھل جاتی ہے۔ ان کے افسانوں کے دو مجموعے شائع ہوئے: ’’کسک‘‘ اور ’’رقصِ شرر کے بعد۔‘‘ ’’ٹُوٹ گیا اِک تارہ‘‘ ان کا نمائندہ افسانہ کہلایا۔
ان کے افسانوں کے جملے خُوب صورت شعر کی طرح ذہن میں تازہ رہتے ہیں اور افسانوں کو شعر کی طرح دِل میں پیوست کر دینا صرف اُسلوب کا کمال ہے۔
کتاب پڑھ کر کتاب لکھی جا سکتی ہے،اَدب تخلیق نہیں کیا جا سکتا۔ تسنیم سلیم چھتاری اپنی تحریر میں اہلِ قلم سے زیادہ اہلِ نظر ہونے کا احساس دلاتی ہیں جوشے کی حقیقت کو بھی سمجھتے ہیں۔ اس ہجومِ عاشقانِ اَدب میں صرف لہجے کا نیا پن ہی لکھنے والوں کو منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ گرچہ تسنیم سلیم کی شہرت اور مقبولیت وقت کے ساتھ ختم ہو چکی ہے،مگر اُردو افسانے کی تاریخ میں ان کی اہمیت نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔