لاہور(آصف محمود بٹ) پنجاب انفارمیشن کمیشن نے کہا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کا معلومات تک رسائی کے قانون پر عملدرآمد کے حوالے سے رویہ افسوسناک ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے ججوں کی تنخواہوں اور مراعات سمیت دیگر معلومات کےحصول کے لئے آئین اور قانون کے مطابق دی گئی درخواستوں کا 5سال گذر جانے کے باوجودکوئی جواب نہیں دیا۔ رائٹ ٹو انفارمیشن قانون 2013میں بنا تھا لیکن عدالت عالیہ آج تک اس قانون پر عملدرآمد کے حوالے سے کوئی ایس او پیز ہی نہیں بنا سکی۔پنجاب انفارمیشن کمیشن نے محمد افتخار مغل ایڈووکیٹ کی طرف سے کمیشن میں دائر کی گئی آر ٹی آئی درخواست جس میں سوالات پوچھے گئے کہ کیا لاہور ہائیکورٹ نے آئین کے آرٹیکل 19 Aاور رائٹ ٹونفارمیشن قانون 2013کے تحت اپنا کوئی پبلک انفارمیشن آفیسر مقرر کیا ہے؟ پچھلے دو سالوں میں لاہور ہائیکورٹ سے معلومات حاصل؛ کرنے کے لئے کتنی درخواستیں فائل کی گئیں، کیا لاہور ہائیکورٹ کے پبلک انفارمیشن آفیسر نے ان درخواستوں کا فوری جواب دیا؟کیا لاہور ہائیکورٹ کے پی آئی او نے انفارمیشن کمیشن کے احکامات کی روشنی میں کوئی انفارمیشن پبلک کی؟ معلومات کے حصول کے لئےدائر کی گئی درخواستوں پر لاہور ہائیکورٹ کا عدالتی نقطہ نظر کیا ہے؟ پنجاب انفارمیشن کمیشن کے احکامات کے باوجود پبلک انفارمیشن آفیسر لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے معلومات فراہم نہ کرنے پر شہریوں کا کیا ردعمل ہے؟ لاہور ہائیکورٹ کے مقابلے میں وزیر اعلی وگورنر سیکرٹریٹ ، چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس سمیت دیگر ادارےآر ٹی آئی درخواستوں پر کسطرح جواب دیتے ہیں؟ کیا ضلعی عدالتیں پنجاب انفارمیشن کمیشن کے احکامات پر معلومات پبلک کرتی ہیں؟لاہور ہائیکورٹ سمیت دیگر عدالتوں سے معلومات پبلک کروانے کے لئےقانون کیا ہے کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ 2017میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے بیمار بچے کے علاج کے لئے حکموت سے لی گئی مالی امداد کی تفصیلات پبلک کی تھیں لیکن اس کے بعد سے آجتک عدالت عالیہ کے پبلک انفارمیشن آفیسر نے کسی بھی درخواست کا جواب دینا پسند نہیں کیا۔