• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طلبہ کیلئے 21ویں صدی کی ڈیٹا لٹریسی مہارتیں

گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران دنیا میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، جنھوں نے ڈرامائی طور پر زندگی پر اثر ڈالا ہے۔ ہم میں سے تقریباً ہر ایک اپنی جیب میں ایک طاقتور کمپیوٹر کے ساتھ گھومتا ہے، جو فی سیکنڈ اربوں حسابات کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہر روز، اجتماعی طور پر ہم لائبریریوں کو بھرنے کے لیے کافی ڈیٹا تیار کرتے ہیں۔ اور انٹرنیٹ نے تقریباً ہر چیز میں خلل ڈال دیا ہے۔ لوگوں کی حرکات و سکنات یا پسند نا پسند کا ڈیٹا کہیں نہ کہیں مرتب ہوتا رہتا ہے اور اس کا نتیجہ موبائل، کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ پر کسی نہ کسی صورت ہمارے سامنے آتا ہے۔ 

دفاتر میں بھی ایسا لگتا ہے کہ آپ ڈیٹا کے سمندر میں غوطے کھارہے ہیں اور ڈوبنے لگے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ہر سیکنڈ میں 50ہزار سے زائد گیگا بائٹس انٹرنیٹ ٹریفک استعمال ہوتا ہے۔ ہر سیکنڈ میں گوگل پر کی جانے والی سرچز اور یوٹیوب پر دیکھی جانے والی ویڈیوز کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ دنیا میں کل ویب سائٹس کی تعداد دو ارب کے قریب ہے، جس میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ڈیٹا سائنس ایک باقاعدہ تعلیمی مضمون کے طور پر اُبھر کر سامنے آچکی ہے۔ 

ڈیٹا کے سمندر میں غوطے کھاتے انسان کو اسے سمجھ کر اس کے نتائج کی روشنی میں کاروباری، معاشی اور سماجی فیصلے لینے ہوں گے۔ ڈیٹا سائنس، ریاضی اور معاشیات کا مجموعہ ہے، جس کے ذریعے اعداد وشمار کا تجزیہ کرنا ممکن ہوتا ہے۔آن لائن معلومات کے بے تحاشا بہاؤ کے باعث، آنے والے دنوں میں ڈیٹا سائنس کا شعبہ انتہائی اہمیت کا حامل بن جائے گا۔

ٹیکنالوجی کے انقلاب نے ہماری زندگیوں کو بہت طریقوں سے بدل دیا ہے۔ امریکا میں تیزی سے ترقی کرنے والی 10 میں سے سات ملازمتیں ڈیٹا سے متعلق ہیں جبکہ ان میں سے زیادہ تر انتہائی تکنیکی ہیں۔ زیادہ تر معلمین سمجھتے ہیں کہ دنیا کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اسکول کا نصاب تیار ہونا چاہیے۔ موافقت سے انکار طلبہ کے لیے نقصان کا باعث بنے گا، جس سے وہ اپنے مستقبل کے لیے تیار نہیں ہوسکیں گے۔ 

صحیح توازن قائم کرنا مشکل ہے، لیکن آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔ کمپیوٹنگ اور ڈیٹا ہر ایک کے کام کی جگہ میں داخل ہو چکا ہے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ آجکل کے بچے بڑے ہونے پر کتنی بار ڈیٹا کے ساتھ کام کر رہے ہوں گے؟ اس نئی دنیا میں، ہم اس وقت اپنے اسکولوں میں جو ریاضی پڑھا رہے ہیں وہ کتنی مفید ہے؟ اس سوال کے بارے میں کچھ بصیرت حاصل کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا سروے کیا گیا۔ 

سروے کے غیر سائنسی نتائج بتاتے ہیں کہ اساتذہ کو موجودہ ریاضی کے نصاب پر بہت زیادہ کام کرنا ہے۔ سروے میں جواب دہندگان میں سے صرف 2 فیصد نے رپورٹ کیا کہ وہ اپنے روزمرہ کے کام میں ٹرگنومیٹری (Trigonometry) کا استعمال کرتے ہیں جبکہ 66فیصد کا کہنا تھا کہ وہ مسلسل اسپریڈ شیٹس بنا رہے ہیں۔ مزید برآں، جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی کیا خواہش ہے کہ ہائی اسکول میں انھیں ریاضی کے کون سے موضوعات کے بارے میں مزید سکھایا جاتا، تو 64 فیصد نے ڈیٹا کے تجزیہ اور تشریح کا نام دیا جبکہ صرف 5 فیصد نے جیومیٹری بتایا۔

ایسے میں کیا کرنا چاہیے؟ اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اسکول فی الحال الجبرا اور جیومیٹری کے لیے جو وقت وقف کرتے ہیں اس کو دو طریقوں سے بآسانی کم کیا جا سکتا ہے، صرف 1) اناکونسٹک، کمپیوٹیشن سے متعلق بھاری موضوعات جو کہ کمپیوٹر کے دور میں اب متعلقہ نہیں ہیں اور 2) ایسے عناصر جو اعلیٰ درجے کی ریاضی کے لیے اہم تعمیراتی بلاکس کے طور پر کام نہیں کرتے۔ 

اس سے نئی وسعتوں کا ایک باب کھل جائے گا جو ڈیٹا لٹریسی، شماریات اور اپلائیڈ میتھ کی دیگر شکلوں کے لیے وقف ہو سکتا ہے۔ بچے ڈیٹا کا تجزیہ، تشریح اور تصور کرنے کا طریقہ سیکھ سکتے ہیں۔ انھیں کوریلیشن اور کوزیشن کے درمیان فرق سمجھایا جاسکتا ہے۔ اور شاید سب سے اہم بات، ڈیٹا کی حدود کو سمجھنے میں ان کی مدد کی جاسکتی ہے، تاکہ وہ جان سکیں کہ ڈیٹا پر مبنی دعووں پر کب یقین کرنا ہے اور کب نہیں۔

ڈیٹا کی حقیقی طاقت اس لکے استعمال میں نظر آتی ہے۔ ماہرین تعلیم یہ تجویز کرتے ہیں کہ ڈیٹا پر مبنی ریاضی کورس کو ریاضی کی ترتیب میں ابتدائی طور پر پڑھایا جائے، تاکہ طلبہ کے پاس ڈیٹا کے تجزیہ کو اپنے سماجی سائنس، ہیومینٹیز اور سائنس کورسز میں ضم کرنے کے مواقع میسر ہوں۔ یہ دانستہ طور پر ڈیٹا-میتھ کا علیحدہ ٹریک بنانے سے گریز کرتا ہے جس کی وجہ سے کچھ طلبہ نئے راستے کا انتخاب کرتے ہیں اور دوسرے روایتی راستے پر قائم رہتے ہیں۔ 

ماہرین کہا کہنا ہے کہ کہ ڈیٹا کی مہارتیں پہلے سکھائی جانی چاہئیں تاکہ ان کا اطلاق پورے ہائی اسکول کے وسیع نصاب میں کیا جاسکے۔ ڈیٹا کا تجزیہ اور تشریح کرنے کے لیے تنقیدی سوچ، تخلیقی صلاحیت اور اس سیاق و سباق کو باریک بینی سے سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں ڈیٹا تیار کیا گیا ہے۔

ماہرین تعلیم کے مطابق، اگرچہ طلبہ کو ڈیٹا لٹریٹ بننے سے بہت کچھ حاصل کرنا ہے، تاہم نصاب کی تبدیلی میں موجود چیلنجز اپنی جگہ موجود ہیں۔ اساتذہ کو مطلوبہ مہارتیں حاصل کرنے کے لیے وسیع پیشہ ورانہ ترقی کی ضرورت ہوگی۔ نصاب سے کن موضوعات کو ختم کرنا ہے اس پر اتفاق رائے تک پہنچنا آسان نہیں ہوگا۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ڈیٹا لٹریسی پر توجہ مرکوز کرنے سے تعلیم میں ایکویٹی کے مسائل میں ڈرامائی طور پر بہتری آئے گی۔ پھر بھی، 21ویں صدی میں رہنے کے لیے ڈیٹا لٹریسی ایک اہم مہارت ہوگی، لہٰذا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ ہر بچے کو اس کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے۔

ڈیٹا کی اہمیت

ڈیجیٹل دور میں رہنے کا سب سے انقلابی فائدہ یہ ہے کہ اب کاروبار کے حوالے سے دستیاب ڈیٹا، مارکیٹ میں مصنوعات و خدمات کے رجحانات اور دائرہ کار کو دیکھ کر طلب و رسد کے مطابق وسیع مواد کا تجزیہ ممکن ہے۔ یہی ڈیٹا بہترین کاروباری سربراہوں کو اپنے کاروبار کو وسعت دینے کی راہیں ہموار کرتا ہے۔ مصنوعات پر آنے والی لاگت اور مارکیٹنگ کی حکمت عملی سے لے کر پوری دنیا میں اس کی مانگ کا تعین اب بگ ڈیٹا انالیٹکس نے ممکن کر دکھایا ہے۔

کمپنیوں کے سربراہ مواد و متن کے استعمال سے ہنر مند اور مطلوب افرادی قوت سے رابطہ کرنے کے قابل ہوچکے ہیں، جس سے معیاری مصنوعات سازی میں مدد ملی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اب صارفین سے رابطہ بھی دفتر بیٹھے سہل ہوگیا۔ ملٹی نیشنلز، صارفین سے براہ راست رابطہ کرکے ان کی پسند و ناپسند جان کر اشتہاری مہم کو کامیاب بنا رہے ہیں۔ ہیومن ریسورز کے لیے ٹیلنٹ مینجمنٹ فنکشنر تکمیل پاچکے ہیں۔