وزیراعظم ٹاسک فورس برائے گندھارا سیاحت کے زیراہتمام اسلام آباد میں منعقدہ تین روزہ عالمی گندھارا سمپوزیم کو ہر لحاظ سے تاریخی قرار دیا جاسکتا ہے،اس موقع پر نہ صرف ہماری ملکی تاریخ بلکہ بُدھ مت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تھائی لینڈ، نیپال، کمبوڈیا، سری لنکا، ویت نام، انڈونیشیا، چین، ملائشیا، کوریا، جاپان سمیت مختلف ممالک کے محترم بھکشو اور مذہبی پیشوا ایک ہی چھت کے نیچے جمع ہوئے، زمانہ قدیم میں موجودہ اسلام آباد کا علاقہ بھی گندھارا تہذیب کا ایک اہم حصہ تھا، عالمی کانفرنس کے دوران مجھے بُدھ مت کے نہایت قابلِ احترام مذہبی پیشواؤں سے بہت کچھ سیکھنے کو مِلا۔ دنیا کے ہر مذہب کی طرح برصغیر کے دھارمک مذاہب بشمول بُدھ مت کی تعلیمات میں روحانی سکون اور خدمتِ انسانیت کو بہت اہمیت حاصل ہے۔آج سے ہزاروں سال قبل نیپال کے شاہی گھرانے میں جنم لینے والے رحم دل شہزادے گوتم سدھارتھ کوہر طرح کا عیش و آرام میسر تھا، تاہم اس نے اپنی پوری زندگی عام آدمی کی زندگی میں آنے والی پریشانیوں کا حل تلاش کرنے میں وقف کردی، وہ نیپال کے شاہی محل سے ایک شہزادے کی صورت میںنکلاتھا لیکن جب ایک طویل عرصے بعد واپس آیاتو ایک سادھو بن چکا تھاجس نے زرد رنگ کامعمولی لباس پہنا ہوا تھا،اس نے اپنے ہاتھ میں کشکول تھاما ہوا تھااورخوبصورت لمبے بالوں کی جگہ سرمْنڈا تھا، تاہم وہ زندگی کے اصل مقصدکا کھوج لگانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ ہزاروں سال قبل جب دنیا جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی، انسا ن معمولی باتوں پر ایک دوسرے کا خون بہایا کرتا تھا، جسکی لاٹھی اسکی بھینس کا قانون پوری دنیا میں چلتا تھا، گوتم بُدھانے ہر مخلوقِ خدا بشمول چرند پرند اور درخت کی خدمت کا درس دیا ۔گوتم بدھ نے غم، دکھ درد اور تکالیف سے چھٹکارے کیلئے جنگلوں میں ، ویرانوں میں اور مختلف مقامات پر بے حد مشکل چِلے کاٹے، بھوک پیاس کا سامنا کیااور آخرکاراس الہامی راز کو پانے میں کامیاب ہوگیا کہ دنیا ایک عارضی سرائے ہے، یہاں دِل لگانے کا کوئی فائدہ نہیں، انسان کی اصل کامیابی اسکا اندررونی سکون ہے،انسان اگر اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پالے تو نہ صرف وہ خود خوش رہ سکتا ہے بلکہ اپنے آ س پاس سماج کا ماحول بھی خوشگوار رکھ سکتا ہے۔ گوتم بدھ کے مطابق دُکھوں کے خاتمے اور دِلی خوشی حاصل کرنے کا راستہ آٹھ منازل سے گزرتا ہے، جس میں بالترتیب درست ارادہ، درست نظر، درست گفتگو، درست رویہ، درست کمائی، درست کوشش، درست سوچ اور درست عبادت شامل ہیں۔اسی طرح بدھا نے خوشی کو سُکھ کا نام دیتے ہوئے چار طرح کی اقسام بیان کیں۔نمبر ایک قرض سے آزاد ہونے کی خوشی، جب قرض ادا ہوتا ہے تو انسان کیلئے وہ لمحہ سُکھ کا ہوتا ہے ۔ نمبر دو، دولت اور صاحب ِجائیداد ہونے کی خوشی۔ نمبرتین، خدا کی نعمتو ں اور وسائل کو استعمال کرنے کی خوشی ۔گوتم بدھا نے حق و سچائی کا ساتھ دینے کو بھی ایک اندرونی خوشی شمار کیا ہے،جب ایک انسان برائی سے پرہیز کرتا ہے اور اپنے ضمیر کی آوازسنتے ہوئے اصولوں کا ساتھ دیتا ہے تو وہ اپنے اندر ایک منفردخوشی محسوس کرتا ہے۔ گوتم بدھا کا کہنا تھا کہ اگر زندگی میں خوش رہنا چاہتے ہو تو ہر دوسرے انسان کو دِل سے معاف کردو، اس شخص کو بھی جو اپنے غلط اقدام پر پشیمان نہیں ہوتا اور معافی کا خواہاں نہیں، اگرتم اپنے دِل میں بغض و کینہ رکھتے ہو تو تم اصل میں اپنے آپ کو ہی دُکھ میں مبتلا کرتے ہو۔جب موجودہ پاکستان کے قدیمی علاقے گندھارا کاعظیم شہنشاہ اشوک ِ اعظم ریاستی سطح پر بُدھ مت کا سرپرست اور پرچارک بن گیا،اشوک کے زمانے میں بُدھ مت دنیا کے دیگر علاقوں چین، جاپان،کوریا،تھائی لینڈ، ویت نام وغیرہ میں تیزی سے پنپنا شروع ہوگیا، عالمی گندھارا سمپوزیم کے موقع پر میرے ہمراہ موجود بُدھ بھکشواس امر پر خوشی کا اظہار کررہے تھے کہ وہ اپنی زندگی میں گندھارا کے ان مقامات کی یاترا کررہے ہیں جنکے بارے میں وہ اپنی مذہبی کتابوں میں پڑھتے ہیں، انہوں نے ٹیکسلا میں تیارکردہ بّدھا کی مورتیاں اپنے ساتھ لے جانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔میں سمجھتا ہوں کہ گوتم بُدھا نے انسانی زندگی کے دونوں پہلوؤںدُکھ سُکھ پرتفصیلی غورو فکر کیا، اس نے دُکھ کی وجوہات کا کھوج لگایااور دُکھ کو شکست دے کر سُکھ کے حصول کا حقیقی طریقہ بتایا، اگر ہمارے اردگرد کوئی یہ سمجھتا ہے کہ گوتم بدھا ایک مایوسی پسند، قنوطیت زدہ اور زندگی سے دور تھا جس نے سوائے دُکھ درد کے اور کچھ درس نہیں دیا، وہ درحقیقت بدھا کی اصل تعلیمات سے لاعلم ہے۔پاکستان سے خوشگوار یادیں لیکرہنسی خوشی واپس جانے والے بھکشوؤں کے بُدھ مت کی قدیمی پالی زبان میں اداکردہ الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ" بھاواتو سبامنگالام"( سب خوش رہیں)۔۔۔!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)