• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرحی نعیم

صبح آنکھ کھلتے ہی رملہ کے ذہن میں جو پہلا خیال آیا تھا وہ یہی تھا کہ میاں اور بچوں کو دفتر ، اسکول ، کالج بھیج کر اس نے مشین لگانی ہے ۔ کھانے میں چکن پکائی جائے یا سبزی ؟ پھر ساتھ کچھ میٹھا بھی بنا لیا جائے کہ کئ دن ہو گئے ، میاں صاحب بھی فرمائش کر رہے ہیں کہ بہت دنوں سے صرف سیدھا سادھا کھانا ہی مل رہا ہے ، ساتھ کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔۔اوہ! آج تو مجھے چھوٹے کے اسکول بھی جانا ہے ۔ ٹیچر نے اگلے ہفتے ہونے والے اسکول فنکشن کے لیے حصہ لینے والے بچوں کے کاسٹیوم وغیرہ کے لیے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔ 

ساتھ ہی اسے خیال آیا کہ شام میں پڑوس میں پندرہ روزہ درس قرآن کی کلاس ہے ۔ چند دن سے بڑی آپا کا بھی فون آ رہا تھا کہ ان کو گھر کے لیے گلاس اور بیڈ شیٹ چاہیے تھی ۔بوجہ خرابی طعبیت وہ بازار نہیں جاتی تھیں ۔ان کے گھر کا اکثر سامان وہی لاتی، کیونکہ انھیں اس کی پسند پر اعتماد تھا۔اس نے سوچا تھا چھوٹی بیٹی کا میچنگ ٹراؤزر لینا ہے اور لیسز بھی ،تو ساتھ دونوں کام ہو جائیں گے۔ کئی دن سے اسٹور کی صفائی بھی ملتوی ہو رہی تھی۔

"افوہ!! اتنے کام اورمیری اکیلی جان ۔۔۔۔ یعنی کم وقت اور مقابلہ سخت۔۔۔۔۔" اوپر تلے کے کام سوچ کر اس کی تو نہار منہ ہی طبیعت مکدر ہو گئی تھی ۔ ذہن سخت تناؤ اور دباؤ میں آچکا تھا ۔ "کیسے ہوگا ؟ کیا کروں اور کیا چھوڑوں ۔۔۔؟" سوچ سوچ کر سر میں دردہونے لگا تھا اور بجائے اس کے کہ کام سمٹتے اور کم ہوتے ، غلط حکمت عملی اور تنائو نے مزید کام بڑھا دیے۔ جلدی جلدی میں کام نمٹانے کے چکر میں برتن دھوتے پیالی ٹوٹی اور کرچیں سمیٹتے ہاتھ کٹ گیا ، پھر استری کرتے تار جو کھنچا، تو استری نے بھی ہٹ دھرمی دکھائی۔ ٹھنڈی استری نے اس کا مزاج مزید گرما دیا بلکہ تپا دیا ۔ یوں ٹھنڈے گرم کے تناسب نے اس تاریخ کے امور میں درجۂ حرارت ہی نہیں بلکہ کاموں کی فہرست بھی اور نیچے بڑھا دی۔ 

اس طرح روز کی طرح سالن تو تیار ہو گیا، مگر شیرنی نہ بن سکی ۔ نہ پڑوس میں جایا جا سکا۔اور نہ ہی قریبی بازار ، ہاتھ کٹنے کی وجہ سے اسٹور کی صفائی بھی ملتوی ہو گئی۔ ہاں بھاگم بھاگ بچے کے اسکول ضرور گئی کہ نہ جاتی تو اسکول سے فون آجاتا۔ میاں کے پاس بھلا کہاں فرصت تھی، جو ان چیزوں پر دماغ کھپاتے،ایک دفتر میں مصروف تو باقی پڑھائی میں مگن۔۔۔۔گھر آنے جانے میں ٹریفک، ٹوٹی سڑکیں، گرمی، کی چڑچڑاہٹ اور گھر میں بجلی، پانی اور گیس کی عدم دستیابی کی جھنجلاہٹ!!!

یہ ایک گھر کی کہانی نہیں ہے ، تقریباً ہر خاتون خانہ، دن کے آغاز پر مختلف سوچوں اور کاموں کی یلغار سے پریشان ہوتی ہے ۔ ہر نئ صبح گھر اور باہر کے کاموں کی لمبی فہرست دماغ میں گھومتی ہے، جس کو نمٹاتے نمٹاتے شام ہو جاتی ، رات بستر میں جاتے تک کچھ کام ہو پاتے ہیں اور کچھ بے دلی سے اگلے دن پر موقوف کر دئیے جاتے ہیں، جس کے بعد اگلا دن پھر لا متناہی دوڑ، ’’کیا کبھی ختم ہونگے یہ کام ۔؟‘‘جس کا جواب یہی ہے کہ ’’کیوں نہیں ،ختم نہیں بھی ہو لیکن کم ضرور ہو سکتے ہیں ۔‘‘کیا ضروری ہے کہ سارے اہم اور ضروری کام کو ایک ہی دن میں نمٹا نا اپنے اوپر لازم کر لیا جائے ؟ یقیناً نہیں اور اس کا سب سے آسان جواب ہے۔

ترجیحات کا تعین ، یعنی ہمیں اپنے ہر دن کے اختتام پر اگلے دن کی منصوبہ بندی کر لینی چاہیے ۔ اہم، کم اہم اور غیر اہم کاموں کی فہرست اپنے ہی دماغ میں ترتیب دے دینی چاہیے۔ کاموں کا انبار جمع کرنے کے برعکس ، اسے مناسب وقت میں انجام دیا جائے۔ کون سا کام ، کب، کس وقت ، کس دن، کرنا ہے، اس کو اپنے ہی ذہن میں طے کرلیں، یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں، لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس کے لیے خاص پیش بندی کی جائے اور کوئی ڈائری بنا کر اس میں لکھ لیا جائے ، اگر اس کی ضرورت محسوس ہو تو ، حرج بھی نہیں، اپنی یا دہانی اور ترتیب کے لیے ابتدا میں لکھ کر رکھنا، اور پھر کاموں کو تقسیم کرنا، آپ کو منظم بناتا ہے۔ آپ ایک اچھے منصوبہ ساز بن سکتے ہیں، جو آج کا کام آج ہی کر یں بس کاموں کی تقسیم ضروری امر ہے۔

ایک ہی دن میں بے شمار کام کرنا، کوئی عقل مندی نہیں ، اور اس کا سہل طریقہ وہی ہے، جس کا ذکر مندرجہ بالا کیا گیا ہے۔ اس کے لیے آپ کو یہ طے کرنا ہے کہ وہ کون سے توجہ طلب امور ہیں جن کو آج ہی کرنا ہے اور کون سا کام اگلے دن کیا جاسکتا ہے۔ اور وہ کون سے غیر اہم کام ہیں جن کو اگلے ہفتے تک بھی انجام دیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کام کا بوجھ نہیں رہتا، دل ودماغ بھی پر سکون رہتا ہے ۔ اس طریقے سے آپ اچھے منتظم، اور منصوبہ ساز بھی بن جاتے ہیں، کیوں کہ آپ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ کون سا کام کب اور کس وقت انجام دینا، نہ صرف اپنے لیے بلکہ گھر والوں اور دوسروں کے لیے بھی زیادہ بہتر ہو سکتا ہے۔

اس طرح وقت کی پابندی کرکے ، وقت کی کمی کا شکار نہیں ہوں گے۔

ہم اکثر اپنے بڑوں سے سنتے ہیں کہ پہلے کی خواتین دن بھر کے کئی گھریلو امور نمٹا کر ظہر سے قبل ہی فارغ ہو جاتیں تھیں ، پھر ان کے پاس سلائی کڑھائی کے لیے بھی وقت ہوتا ہے اور پڑوسیوں کی خیریت معلوم کرنے کا وقت بھی مل جاتا ہےاور بچّوں کو بھی توجہ دے دیتی ہوں۔ اس میں کاموں کی حسن تدبیر تو شامل تھی لیکن ساتھ ساتھ سحر خیزی بھی جو وقت میں برکت کا باعث ہے۔ اگر ہم اپنی نیند کو بھی اپنے قابو میں رکھیں تو یہ عادت بھی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ جلدی سونا اور جلدی اٹھنا ، اس کے فوائد سے کون واقف نہیں ، چوبیس گھنٹے ہم سب کے پاس ہیں، اصل تو اس کو استعمال میں لانے کی تدبیر ہونی چاہیے۔

فجر سے قبل ہی اٹھنے کی عادت اپنائیں ، نماز، تلاوتِ قرآن اور اذکار کا اہتمام کیجیے اور اس کے بعد اپنے دن بھر کے کاموں کے شیڈول کا جائزہ لیں ۔ نظام الاوقات بنا کر اس پر پوری طرح عمل درآمد کرنے کی کوشش کریں ۔ چند دن اس میں مشکل درپیش ہو گی لیکن بعد میں یہی ترتیب آسان اور آرام دہ ہو جائے گی ۔ ذہن الجھنوں سے کسی حد تک پیچھا چھڑانے میں کامیاب ہو جائے گا ۔ ذہنی الجھنیں کم ہوں گی تو لا محالہ اس کا اثر مزاج پر بھی آئے گا ۔ موڈ خوشگوار ہو، تو مشکل کام بھی سہل محسوس ہوتا ہے۔ 

تعلقات بھی مضبوط ہوتے ہیں۔ یعنی کڑی سے کڑی جڑتی چلی جاتی ہے ۔ اکثر خواتین یہ غلطی کرتی ہیں کہ غیر ضرروی کاموں کو اہم کام پر فوقیت دیتی ہیں ، یا پھر بے مقصد کاموں کو با مقصد کاموں پر ہماری ذرا سی محنت، تھوڑی سی توجہ نہ صرف ہماری زندگیوں کو حسن ترتیب دے سکتی ہے، بلکہ دوسروں کی زندگیوں کو بھی بہتری کی جانب گامزن کر سکتی ہے۔

دن کا نظام الاوقات بنا کر ہم اپنے کچھ وقت کو فارغ کر سکتے ہیں ۔ اور یہ فارغ وقت، اپنے پچھلے رکے ہوئے کام، کسی کی عیادت، کہیں تعزیت، کسی پرانی سہیلی سے ملاقات ، ضرورت مند کی مدد ، کسی کی حاجت روی،اور اسی طرح دوسرے حقوق کی حفاظت و ادائیگی میں صرف ہو سکتے ہیں ، جو ہم زندگی کی بھاگ دوڑ میں کوتاہی کی نظر کر جاتے ہیں۔ 

اچانک کوئی ضروری کام آجائے ، اس کاتو کوئی حل نہیں لیکن اگلے ایک ہفتے کا شیڈول بھی ان کاموں کے لیے ترتیب دیا جا سکتا ہے کہ کس دن کہاں جایا جاسکتا ہے اور کس دن کچھ وقت کہاں لگایا جائے۔ اگر آ پ ہنر مند ہیں تو خواتین اور بچیوں کو ہنر سکھادیں، یہ بھی کار خیر کہلائے گا۔ یاد رکھیں !وقت جیسی نایاب شے بھی ہمارے پاس اللہ کی عطا کردہ امانت ہے۔ اس امانت کا حق ادا کرنا اور اسے بے مصرف کاموں میں ضائع نہیں ہونے دینا، ہم پر لازم ہے، کیوں کہ ہم اس کے بھی جواب دہ ہیں۔