• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آسیہ عمران

لسی کا گلاس پیتے توانائی جیسے رگ وپے میں اتر گئی ، بے ساختہ کلمہ شکر کے ساتھ اسے کنو،امرود اور چیکو سے بھری ٹرے لاتے دیکھ کر مسکراہٹ در آئی۔ وہ الجھن میں پڑ گئی۔ میں نے بھی مہارت سے بات پلٹ دی۔ ہم لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کے لئے ایک روزہ تربیت گاہ کی منصوبہ بندی (پلاننگ)کر رہے تھے۔ دو گھنٹے میں فروٹ کھانے کے ساتھ ہم جگہ ، ریفریشمنٹ ،پروگرام کا مکمل ایجنڈا طے کر چکے تھے کہ ان کی بیٹی چائے کے ساتھ سوجی کی پنجیری ،بھنے چنے اور مونگ پھلی لئے ہوئے آئی۔ میں ہاتھ دھونے سنک پر گئی ۔ وہاں بھی میرے لئے حیرانگی تھی۔ وہ میری مسکراہٹ بھولی نہ تھی بلکہ منتظر تھی کہ اس سے کچھ پوچھوں۔

اب میرے لئے بھی انتظار مشکل تھا میرا پہلا سوال تمہید کے ساتھ تھا کہ اب تو دور دراز ،گاؤں دیہاتوں میں بھی کسی مہمان کو لسی پیش نہیں کی جاتی۔ کولڈ ڈرنکس ہی سے تواضع کی جاتی ہے۔ پھر فروٹ پیش کرنا اور چائےسے پہلے چنے کا حلوہ ، سوجی کی پنجیری، مکئی کے پھلے ،مونگ پھلی یہ سب تواضع کے کچھ غیر معمولی انداز ہیں، پھر سنک کے سامنے ٹوتھ پیسٹ کے بجائے منجن ، مسواک اور وہیں موجود بیسن نے مجھے حیران کیا ہے ۔ یہ سب تو گزرے دور کی باتیں ہیں۔ پہلے وہ خوب دل کھول کر ہنسی ۔پھر بولی بہنا یہ سب اتنا بھی حیران کن نہیں۔

آپ کو حیرت اس لئے ہوئی کہ میڈیا جو اس وقت سب سے بڑے تربیتی ادارے کی صورت اختیار کر گیاہے۔تواضع کے یہی انداز دکھائے ہیں۔ یاد رہے کہ میڈیا کی بنیاد پر ملٹائی نیشنل کمپنیز کا جال بچھا ہے۔ لہٰذا میڈیا جو کچھ دکھاتا رہا ہے وہی ہماری زندگیوں میں داخل ہو گیا ہے۔ اس سے باہر کی حقیقی دنیا کا ایک بڑا حصہ ہم سے اوجھل ہو گیا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے بھی زندگی میں صفائی ستھرائی ،خوبصورتی کے نکھار ،مہمان نوازی کے انداز اختیار کیے جاتے تھے۔ جو سو فی صدقدرتی انداز تھے۔ 

ان لوگوں کی صحت ، قربت کے انداز کہیں زیادہ دل موہ لینے والے تھے۔ جب سے ہماری غذاؤں میں طرح طرح کے کیمیائی عناصر نے قدرتی اشیاء کی جگہ لے لی تب سے صحت کے مسائل بڑھتے چلے گئے۔ خوبصورتی اور زندگی کے انداز بھی الگ ہو گئے ۔اس پر سب سے زیادہ اثر اشتہارات نے ڈالا ہے ۔ جو ایک بہت بڑے دھوکے کی دنیا ہے۔کچھ سال قبل اس حوالے سے کافی سوچا اور تحقیق کی ۔ شکر بھی کیا کہ ہمارے ہاں اب بھی قدرتی اشیاء کی بہتات ہے۔

لہٰذا شعوری کوشش سے قدرتی اشیاء کو غذا کے طور پر اور زندگی کے باقی شعبوں میں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ جب سے منجن کا استعمال شروع کیا، ٹوتھ پیسٹ تو جیسے گم ہی ہوگئی ہے۔ سچ بتاؤں تو گھر کا بجٹ مینیج ہو گیا ہے۔ کئی قدرتی، سستے اور مفید متبادل ہا تھ آئے ہیں۔ اگلی ملاقات میں اس کی تفصیلات بتاؤں گی ۔اس نے مجھے گھڑی کی طرف نگاہیں دوڑاتے دیکھ کر تفصیلات کو اگلی ملاقات پر ملتوی کیا۔ مہمانوں کے لئے لسی، لیموں کا پانی ، کیری کا شربت یا پھر تازہ جوس تیار کرتی ہوں۔ 

ڈرنکس ،مصنوعی اشیاء ،جوس نہ خود پیتی ہوں نہ ہی کسی کو پلاتی ہوں کہ وہ مضر صحت ہیں۔اتوار بازار سے سبزیاں ، پھل کھیرا، مولی، گاجر ،ککڑی سب لاتی ہوں جو اب بچوں کے ذائقے کا اولین حصہ بن گئی ہیں۔ پھل میں بھی موسم کے پھل کو ترجیح دیتی ہوں سستا بھی ہوتا ہے اور مفید بھی کہ قدرت نے اس میں اس موسم سے بچاؤ کا سامان رکھا ہوتا ہے۔ یہ آخری باتیں اس نے دروازے تک الوداع کرتے بتائیں۔ میں وہاں سے آ تو گئی ہوں لیکن شدید مرعوبیت میں ہوں۔ ایک سوال ہے جو خود سے پوچھے جا رہی ہوں۔ کیا ہم واقعی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوچکے ہیں ؟