گزشتہ دنوں مجھے وفاقی دارالحکومت میں موجودہ صدی کے عظیم ترین منصوبے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے دس سال مکمل ہونے پرمنعقدہ خصوصی تقریب میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا،جس میں وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف ،وزیر خارجہ بلاول بھٹو اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی پروفیسر احسن اقبال سمیت اعلیٰ حکام اور تجارتی اداروں کے سربراہان موجود تھے، اس موقع پر چین کے وژنری صدر شی جن پنگ کے خصوصی نمائندے اور چین کے نائب وزیر اعظم ہی لی فینگ نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی،سی پیک منصوبے کی دس سالہ تقریبات کے دوران دونوں دوست پڑوسی ممالک نے دو طرفہ تعاون کو مزید مستحکم اور مضبوط اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کیلئے مفاہمت کی چھ یادداشتوں پر دستخط کیے جبکہ اس تاریخی موقع کی مناسبت سے حکومت پاکستان نے یادگاری ڈاک ٹکٹ، سکہ اور فرسٹ ڈے کووربھی جاری کیے۔دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت نے گزشتہ ایک دہائی میں مذکورہ منصوبے کے تحت مختلف میگا پروجیکٹس کی تکمیل، پیش رفت اور مستقبل کے لائحہ عمل کا بھی جائزہ لیتے ہوئے مزید ترقیاتی منصوبوں اور باہمی تعاون کو بڑھانے کے عزم کا بھی اعادہ کیا،اس امر میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ آج سے دس سال قبل 2013ء میں جب چینی صدرکے دورہ پاکستان کے بعد پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا آغاز کیا گیا تو پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزر رہا تھا،مجھے یاد ہے کہ اس وقت دہشت گردی کا عفریت قابو سے باہر تھا ،افغانستان اوربھارت کے ساتھ سرحدی کشیدگی عروج پر تھی، ملکی فضاء پر غیریقینی کے بادل چھائے ہوئے تھے،پورے ملک کا ہر شہری بدامنی اور خوف کا شکار تھا،کوئی ملک پاکستان میں ایک ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کو آمادہ نہ تھا،ایسے موقع پر دوست ملک چین کی جانب سے بیلٹ اینڈ روڈ جیسے عالمی میگا منصوبے کیلئے پاکستان کو منتخب کرنا تازہ ہوا کا ایک جھونکا ثابت ہوا، سی پیک کے تحت پہلے مرحلے میں پاکستان کو 25ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ممکن ہوئی جو ہماری قومی تاریخ کا ایک ریکارڈ ہے۔تاہم سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے مختلف عالمی سازشوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا تھا، اس حوالے سے میں نے اپنے ہفتہ وار کالم بعنوان 'سی پیک کے خلاف مغربی سازش؟ 'بتاریخ 26فروری 2017ء میں گزشتہ صدی کے عظیم منصوبے برلن تا بغدادساڑھے چار ہزار کلومیٹر طویل ریلوے لائن پر روشنی ڈالی تھی جسکو ناکام بنانے کیلئے عالمی قوتوں نے پہلی جنگ عظیم چھیڑ دی،یہ منصوبہ اپنی تکمیل سے قبل ہی ناکامی کا شکار ہوگیا اور پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی کو دو حصوں میں تقسیم کرکے دیوار برلن کھینچ دی گئی، تاہم عالمی مبصرین کا ماننا ہے کہ اگر ریلوے لائن منصوبہ کامیاب ہوجاتا تو جرمنی عالمی منظرنامے پربہت جلد ایک نئی سپرپاورکا روپ دھار لیتا۔میں نے اپنے کالم میں واضح کیا تھا کہ چین کی بحیرہ عرب میں بذریعہ گوادر بندرگاہ پہنچنے سے نت نئی عالمی تجارتی منڈیوں تک رسائی حاصل ہوگی جسکے مثبت ثمرات سے پاکستان مستفید ہوگا۔ دفاعی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تومیرا آج بھی یہی موقف ہے کہ جس طرح 1998 ء میں ایٹمی تجربوں نے ملکی دفاع ناقابلِ تسخیر بنا دیاتھا، اسی طرح سی پیک منصوبہ ملکی اقتصادی دفاع مستحکم کرنے میں معاون ثابت ہورہاہے۔میں سی پیک منصوبے کے دس سال مکمل ہونے پر پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم اور قائدِ عوام ذولفقار علی بھٹو شہید کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہوں گا جنہوں نے پاک چین دوستی کی لازوال بنیاد یں رکھیں، بھٹو صاحب کی سیاسی بصیرت کی بدولت پاکستان کو نہ صرف سفارتی سطح پر ایک قابلِ اعتماد دوست ملا بلکہ چین کے جدید دنیا کے ساتھ روابط بھی استوار ہوئے جسکا اعتراف آج بھی چینی کرتے ہیں۔اسی طرح ہماری سیاسی تاریخ کا یہ منفرد اعزازوفاقی وزیر احسن اقبال کو حاصل ہوا ہے کہ دس سال قبل انہوں نے جس جوش و ولولے سے سی پیک کا آغاز کیا تھا ، آج 2023ء میں بھی وہ نیک نیتی سے سی پیک کو آگے بڑھانے کیلئے پُرعزم ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم صاحب کی طرف سے بھارت کو سی پیک مخالفت ترک کرکے اسکے مثبت ثمرات سے استفادہ کرنے کا مشورہ بہت بروقت اور حقیقت پسندانہ ہے، بھارتی قیادت کو سوچنا چاہئے کہ گزشتہ 76برسوں میں پاکستان دشمنی کے منفی رویے کا خمیازہ دونوں ممالک کے عوام کو بھگتنا پڑا ہے، وقت آگیا ہے کہ سی پیک منصوبے کے اگلے مرحلے میں پاکستان ، چین اور خطے میں ترقی و خوشحالی کو یقینی بنایا جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)