1707ء میں اورنگزیب کاانتقال ہوا تو مغلیہ سلطنت کی عمارت دھڑام سے گر پڑی۔ سب راجے اور نواب آزاد ہو گئے۔ ہندوستان سے مرکزیت ختم ہو گئی۔ ملک سیکڑوں چھوٹی بڑی ریاستوں میں تقسیم ہوگیا۔ یورپی اقوام نے ہندوستان کا رخ کرلیا تھا۔ کلکتہ، مدراس، بمبئی میں انہوں نے تجارتی کوٹھیاں قائم کرلیں۔ کوٹھیوں کی حفاظت کے لیے فوج بھرتی کرلی۔ کلکتہ میں انگریزوں کی تجارتی کوٹھی کا انچارج ،رابرٹ کلایو تھا، اس نے بنگال کے نالائق نواب سراج الدولہ کو شکست فاش دیکر ہندوستان پر برطانوی قبضے کا دروازہ کھول دیا۔
انگریزی فوج پانچ ہزار اور سراج الدولہ کی فوج پچاس ہزار تھی۔ سراج الدولہ شکست کھاکر بھاگا تو اسے میر جعفر کے سپاہیوں نے ڈھونڈ نکالا اور تشدد کرکے ہلاک کردیا۔ 1799ء میں انگریزوں نے اپنے سب سے بڑے اور لائق دشمن ٹیپو سلطان کو بھی ہرادیا۔ اب انگریزوں کا سورج نصف النہار پر پہنچ گیا۔ اس وقت حیدر آباد دکن ایک بڑی ریاست تھی۔ حکمران کو نظام کہا جاتا تھا انگریزوں نے حیدر آباد میں بھی اپنے پنجے گاڑلئے ۔ ٹیپوسلطان کی شکست میں نظام کا بڑا حصہ تھا۔
حیدر آباد، دربار میں انگریز نمائندہ (ریزی ڈینٹ) موجود تھا،جس کا نام جیمز کرک پیٹرک تھا، یہ اسی کی داستان ہے۔ اس وقت انگریزجنرل کا نام، ویلزلے تھا، جو کلکتہ میں رہتا تھا۔ مدراس کے گورنر کا نام کلایو تھا ،جو رابرٹ کلایو کا بیٹاتھا۔ گورنر کا محل 75ایکڑ زمین پر بناہوا تھا۔ 7؍نومبر1801ء کے دن دو پراسرار بندوں کو محل کے اندر بڑی سرعت کے ساتھ داخل کرایا گیا۔ یہ دو انگزیز فوجی افسر تھے اور حیدرآباد آئے تھے۔ گورنر جنرل لارڈ ویلزلے کو حیدرآباد کے ریزی ڈینٹ جیمز کرک پیٹرک کے خلاف کچھ شکایات ملی تھیں۔ گورنر جنرل نے انکوائری کا حکم دیا تھا۔
یہ دونوں افسر اس سلسلے میں حیدرآباد سے مدراس بلوائے گئے تھے۔ مدراس کے گورنر کلایو نے دونوں کو قسم دے کر پوچھا۔ کیا سچ ہے کہ جیمز نے حیدرآبادی کلچر اختیار کر لیا ہے۔ حیدرآبادی لباس، خوراک، زبان، عادت و اطوار اپنالئے ہیں۔ جاسوسوں نے تصدیق کی۔ دوسرا سوال تھا،کیا یہ سچ ہے کہ جیمز کرک پیٹرک ایک نواب زادی (خیرالنساء) کے عشق میں مبتلا ہوگیا ہے اور بات حد سے آگے نکل گئی ہے۔ لڑکی کے دادا نواب نے اعلان کیا ہے اگر انصاف نہ ملا تو وہ بڑی مسجد کے دروازے پر جاکر بیٹھ جائے گا اور فقیر بن جائے گا، فریاد کرے گا، ان کے لئے یہ غیرت کا مسئلہ تھا۔
نواب زادی سید خاندان سے تھی اور یہ لوگ خاندان کے باہر شادی نہیں کرتے تھے۔ شہر میں ہر طرف داستان عشق کے چرچے تھے۔ گویا مرزا شوق کی مثنوی زہرعشق اسٹیج پر ڈرامے کی شکل میں دکھائی جا رہی تھی۔ یہ نہ صرف حیدرآباد کے شرفاکی بدنامی تھی بلکہ انگریز حکومت کا تاثر خراب ہو رہا تھا۔ عشق کی داستانوں کا خاصہ ہے کہ عوام الناس انہیں مرچ مسالے ملا کر اور چٹخارے لے کر بیان کرتے اور مزے لیتے ہیں۔
اس زمانے میں فرانس میں نپولین کو عروج حاصل ہو رہا تھا اور انگریزنپولین کی سرگرمیوں سے آگاہ تھے، ڈر یہ تھا کہ ریزی ڈینٹ جیمز کرک پیٹرک انگریزوں کی وفاداری چھوڑ کر نظام کی تابعداری اختیارنہ کرلے۔ ایسے الجھے ہوئے حالات میں گورنر جنرل ویلزلے نے جیمز کرکٹ پیٹرک کے خلاف انکوائری کاحکم دے دیا، گواہوں نے کہا کہ ان باتوں کا پورے شہر میں چرچاہے اور انہوں نے یہ باتیں سنی ہوئی ہیں۔ ادھر جیمز کرکٹ پیٹرک نے واضح کردیا کہ وہ نواب زادی کو اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ ایسا لگنے لگاکہ مشہور داستان الف لیلیٰ دہرائی جا رہی ہے۔ بہت سے انگریزوں کو جیمز کرک پیٹرک کا ہندوستانی لباس پہننا اور وضع قطع اختیار کرنا بہت گراں گزرتا تھا۔
انگریز، ہندوستانی عورتوں سے شادی تو کرتے تھے، مگر عشق کے پھندوں میں نہیں پھنستے تھے، یہ تو افلاطونی عشق تھا۔ بعض انگریز ہندو یامسلمان بھی ہو جاتے تھے۔ عشق کی یہ داستان سن کر انہیں ایسا لگتا تھا کہ برطانیہ نے ہندوستان کو فتح نہیں کیا بلکہ ہندوستانیوں نے برطانیہ کو فتح کرلیا ہے۔ اب انگریز اور ہندوستانی سماجی طور پر ایک دوسرے کے نزدیک آرہے تھے ،ان میں نفرت، محبت، کھنچاؤ، الجھنیں، تعصبات پیدا ہو رہے تھے۔ یورپین، انڈین شادیاں عام ہو رہی تھیں۔
اس سے پہلے بھی بیرونی فوجیں ہندوستان آتی رہی تھیں لیکن اس طرح کی صورتحال کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی۔1510ء میں پرتگالیوں نے گوا فتح کیا تو پرتگالی کمانڈر نے حکم دیا کہ مفتوحین کی بیوائوں سے شادی کرو۔ اس وقت ہندوستانی عورتوں کو یورپی عورتوں سے بہتر، ان کے لئے پرانا لفظ ’’مور ‘‘(مسلمان) استعمال ہوتا تھا۔ شادی کے بعد ان مور عورتوں کو عیسائی بنالیا جاتا تھا،مگر یہ پرتگالی زور زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکا۔ پچاس سال میں حالات بدل گئے، اب یورپین لوگ ہندوستان کے طور طریقے ادب و آداب، خوراک لباس اپنانے لگے ۔
ہندو مسلمان تو پہلے سے مل جل کر رہتے تھے، اب عیسائی اور یہودی بھی مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر رہنے لگے، شربت پینے لگے پان چبانے لگے۔ جہانگیر اور شاہ جہاں کے عہد میں پرتگالیوں کا یہ حال ہو گیا کہ وہ گوا کو اپنا وطن سمجھنے لگے۔ انہیں ہندوستان کی زندگی، پرتگال کی زندگی سے بہتر لگنے لگی۔ عورتوں تک نے ہندوستانی فیشن اپنا لیے، ڈاکٹروں نے ہندوستانی طریق علاج اپنا لیا۔ جب دو کلچر آپس میں ملتے ہیں تو ایک دوسرے میں نفوذ کئے بنا نہیں رہ سکتے۔ لیکن شدت پسند پرتگال اس کی مخالفت میں بڑے سخت تھے۔
ان کا بس چلتا تووہ لوگوں کو تبدیلی کلچر پر سزا دیتے۔ یہ آوارہ وطن لوگ ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ میں چلے جانے کو مصلحت سمجھتے۔ یہ تو یورپ سے قسمت آزمائی کے لئے آئے تھے، انگریز ان آوارہ گردوں کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے تھے۔ جہاں تک ولیم کرک پیٹرک کے عشق کا تعلق ہے وہ سچا عاشق نکلا۔ نواب زادی خیرالنساء سے ان کے دو بچے پیدا ہوئے۔
ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ بیٹے کانام ولیم جارج رکھا گیا،مگر حیدر آباد میں اسے میر غلام علی صاحب عالم کہا گیا۔ یہ بچپن میں معذور ہو گیا اور ستائیس برس کی عمر میں انتقال کر گیا۔ بیٹی کانام کیتھرین رکھا گیا۔ حیدر آبادی نام نورالنساء صاحب بیگم تھا جب بڑی ہوئی تو ایک انگریز کپتان سے شادی ہوئی87برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔
یہ دلچسپ باتیں لی گئی ہیں، ولیم ڈال رمپل کی کتاب ’’وائٹ مغلز‘‘ سے۔ یہ کتاب، اس زمانے کی حیدرآباد کی سیاست اور تہذیب کا مرقع ہے۔