وطن عزیز کے حالات و وقعات نہیں بدلتے ،تاریخ خود کو مسلسل دہراتی چلی جاتی ہے تو سوچا کیوں نہ میں بھی موقع کی مناسبت سےآج کچھ پرانی باتیں یاد کروائوں۔’نرگسیت‘ سے متعلق قدیم یونا نی کہانی کے کئی ورژن ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ زیوس دیوتا آسمان پر راج کرتا تھا، وہ حسن پرست تھا ۔ ایک روز اُس کا سامنا خوبصورت پری سے ہوا۔ وہ پری باتیں کرتی رہتی اور زیوس کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتا۔ اُس کی بیوی ہیرا کو زیوس کی یہ عادت پسند نہ آئی۔اُس نے خوبصورت پری کو بددعا دی تو وہ محض بازگشت بن کر رہ گئی۔ اِسی مناسبت سے اِس دلکش پری کو ’’ایکو‘‘ کا نام دیا گیا۔ وہ جنگل میں بھٹکتی پھرتی تھی۔ ایک دن اُسے شکار کیلئے آیا خوبصورت شہزادہ ’’نارسیس‘‘ نظر آیا تو وہ اُس کے عشق میں مبتلا ہو گئی اور بے اختیار اُس کے پیچھے چلنے لگی۔ شہزادے کو تعاقب کئے جانے کا احساس ہوا تو اُس نے چلا کر کہا، کون ہو تم؟ ’’ایکو‘‘ نے بھیس بدل کر اُسے گلے لگا لیا اور اپنے جذبات و احساسات سے آگاہ کیا۔ شہزادہ ’’نارسیس‘‘ نے اُسے ایک طرف دھکیل دیا اور اُس کی محبت دھتکارتے ہوئے کہا دور ہو جائو مجھ سے۔یہ سن کر پری کا دل ٹوٹ گیا۔اُس نے بددعا دیتے ہوئے کہا، خدا کرے تم اپنی ذات کے اسیر ہو جائو، تمہیں اپنے آپ سے پیار ہو جائے اور اِس محبت کو پانے کا کوئی راستہ نہ مل پائے۔ انتقام کا دیوتا خوبصورت پری ’’ایکو‘‘ کی آہ سن کر جلال میں آگیا اور شہزادہ ’’نارسیس‘‘ کو سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ ایک روز جب وہ شکار کے دوران پیاسا تھا اور پانی کی تلاش میں پھر رہا تھا تو اُسے دریا میں اپنا عکس دکھائی دیا۔ انتقام کے دیوتا نے اسے ایسا اُکسایا اور لُبھایا کہ ’’نارسیس‘‘ خود ہی محب اور خود ہی محبوب ہو گیا۔ وہ خود پرستی کا شکار ہو گیا، اُسے اپنے ہی عکس سے پیار ہو گیا۔’’نارسیس‘‘ پانی میں دکھائی دے رہے اپنی ہی عکس کے خیالوں میں کھویا رہتا۔ وہ کھانا، پینا بھول گیا اور وہیں دریا کنارے بیٹھے اُس کی موت واقع ہو گئی۔ ’’ایکو‘‘ کو خبر ہوئی تو وہ اُس کی طرف لپکی مگر وہاں ’’نارسیس‘‘ نہ تھا بلکہ نرگس کا ایک پھول کھلا ہوا تھا۔دنیا بھر کے ماہرین نفسیات اِس بات پر متفق ہیں کہ ’’نرگسیت‘‘ کی 9علامات ہیں، اگر کسی شخص میں کم از کم 5نشانیاں پائی جاتی ہیں تو یہ مان لینا چاہئے کہ وہ شخص اِس نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہے۔
پہلی علامت ہے اپنی افضلیت کے بے پایاں احساس میں مبتلا ہونا۔مثلاً میں اسمارٹ ہوں ،میرے جیسا کوئی نہیں،مجھے کسی چیز کی کمی نہیں،میں کسی کا محتاج نہیں ،دوسروں سے افضل ہونے کا مغالطہ جسے احساس برتری کہا جاتا ہے، اس کے بارے میں ماہرین نفسیات واضح کر چکے ہیں کہ احساس برتری بھی دراصل احساس کمتری کی ایک شکل ہے ۔اس غلط فہمی کی کوکھ سے ایک اور مغالطہ جنم لیتا ہے جو ماہرین کے خیال میں ’’نرگسیت ‘‘کی دوسری بڑی علامت ہے اور وہ ہے ہر چیز پر اپنا حق جتلانا۔اگر یہ کسی ٹیم کا حصہ ہوں تو خود کو کارکردگی اور محنت کے ذریعے قیادت کا حقدار ثابت کرنے کے بجائے اس واہمے میں مبتلا رہتے ہیں کہ یہ تو ان کا پیدائشی حق ہے۔وہ خود کو ہر منصب کا حقدار گردانتے ہیں ، اس کے حصول کیلئے جائزیا ناجائز کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے کیونکہ ان کی دانست میں جس چیز پر حق ہے اسے صحیح یا غلط طریقے سے حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔’’نرگسیت ‘‘کی تیسری علامت یہ ہے کہ جب یہ خودپسند لوگ کوئی عہدہ ،منصب یا اختیار حاصل کرلیتے ہیں تو کامیابی اور طاقت سے متعلق غیر حقیقت پسندانہ رویئے کا شکار ہوجاتے ہیں۔مثال کے طور پر ایک شخص قاصد رکھے جانے کے قابل نہیں ،کسی کے دستِ شفقت کے باعث اسے چیف ایگزیکٹو لگا دیا گیاہے تو وہ اپنے اختیارات اور طاقت سے متعلق گھمنڈ میں مبتلا ہو جائے گا۔وہ یہ سمجھنے لگے گا کہ واقعی سب اس کے ماتحت ہیں ۔’’نرگسیت‘‘کی چوتھی نشانی یہ ہے کہ ایسے لوگ چاہے اور سراہے جانے کی بے پناہ احتیاج میں مبتلا ہوتے ہیں۔انہیں تعریف و توصیف ،خوشامد ،تملق اورچاپلوسی نہ صرف پسند آتی ہے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ہر پل ،ہر قدم پر ان کی مدح سرائی بھی کی جائے،لوگ ان کی شخصیت کو جاذب نظر قرار دیں ،ان کے انداز گفتگو پر دادکے ڈونگرے برسائیں۔پانچویں علامت یہ ہے کہ وہ تعلق اور رشتہ نباہنے کے قائل نہیں ہوتے،ان کے نزدیک کسی رشتے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔چھٹی نشانی یہ ہے کہ ایسے لوگ سفاکیت کی حد تک بے رحم اور ہمدردی کے جذبات سے عاری ہوتے ہیں۔ ساتویں علامت یہ ہے کہ یہ مغرور اور گھمنڈی ہوتے ہیں۔کمزور کو خاطر میں نہیں لاتے اور طاقتور کے آگے جھکنے میں عار نہیں سمجھتے۔آٹھویں نشانی یہ ہے کہ ایسے لوگ خود کو باقی سب سے انوکھا اور منفرد خیال کرتے ہیں۔’’نرگسیت‘‘کی نویں علامت یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنی ذات کے علاوہ کچھ نہیں سوچتے۔وہ سمجھتے ہیں کہ اگر میں نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں،سب کچھ تباہ و برباد ہوجانا چاہئے۔
کالم کے آخر میں خیال آیا کہ یہ سب تفصیل بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی،جناب عمران خان کاذکر کردیتا تو قارئین نرگسیت کا مفہوم جان لیتے ۔ بلاشبہ انہوں نے شہزادوں کی سی زندگی بسر کی اور اس دوران ان گنت چاہنے والوں نے ان پر اپنی محبتیں اور عقیدتیںنچھاور کیں ،اپنا تن ،من اور دھن قربان کیا۔لیکن پھر کسی خوبصورت حسینہ کی بددعا اثر کرگئی اور وہ اپنی ذات کے حصار میں مقید ہوگئے ۔گاہے خیال آتا ہے کہ اٹک جیل کی اسیری تو کسی نہ کسی روزختم ہو ہی جائے گی لیکن کپتان خود پرستی کی قید سے کب آزاد ہوں گے؟شاید کبھی نہیں،کیونکہ وہ نرگسیت کا چلتا پھرتا اور جیتا جاگتا نمونہ ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)