• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرحی نعیم 

14 اگست کا زور وشور ہر سال ہی ہوتا ہے۔ ویسے بھی اپنے وطن سے اُلفت اور پیار اس ملک میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے والے ہر پاکستانی کو بچپن سے ہی ہونا چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں ابتدا سے وطن کی محبت کی کہانیاں ،مضامین اور نظمیں پڑھائی جاتی ہیں، تاکہ بچے کے دل و دماغ میں رچ بس جائیں لیکن آج کل جو کچھ ہم اپنے ارد گرد دیکھ رہے ہیں، اس سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے ان اسباق کو صرف کتابوں کی حد تک ہی محدود کر دیا ہے اور اب یہ صرف کتابی باتیں ہیں۔ عمر کے ساتھ ان اسباق کی زبان اور بیان میں جتنی چاشنی ہوتی ہے، جتنا موثر پیغام دینے کی کوشش ہوتی ہے۔ بچوں پر ان کا اثر شاید اتنے نتیجہ خیزثابت نہیں ہوئے۔ 

دل سے نکلے الفاظ ہی دل پراثر انداز ہوتے ہیں، ورنہ مشینی اور پیشہ ورانہ انداز میں دیا گیا سبق غیر موثر ہی رہتا ہے،جس کا مشاہدہ آپ ہر عمر اور طبقے کے افراد میں بآسانی کر سکتے ہیں ۔اب تو ہمارے بچے ہم سے یہی کہہ رہے ہوتے ہیں’’ارے یہاں رکھا ہی کیا ہے؟‘‘’’ اس ملک نے مجھے دیا ہی کیا؟‘‘، پھر کبھی ماںتو کبھی باپ کہتے ہیں’’یہاں تو ہر طرف نا انصافی ہے،میں تو باہر جا کر ہی بچوں کا مستقبل بناؤں گی/گایا بچّوں کو باہر سیٹ کردیں گے‘‘۔ یہ سب جملے ہم سب اکثر سنتے ہیں۔ اس سارے منظر نامے میں ہم ، والدین کی ذمہ داری کو نہ بھلائیں۔ یہ ہماری ہی کوتاہی اور عدم توجہی ہے کہ آج ہماری گودوں میں بڑے ہونے والے بچے اپنی پہچان ، اپنی شناخت بھول رہے ہیں۔ 

سال میں ایک دن شور و غل کرکے گھر ، گلی محلوں کو سجا کر ، اور چیخ چیخ کر وطن سے محبت کا اظہار کر کے ہم دنیا کو کیا دکھاتے اور سناتے ہیں ؟ ہمارے دل اس محبت سے دور ہوتے جارہے ہیں، جس کا ابلاغ سال کے 364 دنوں میں ہم بخوبی کرتے ہیں۔ توڑ پھوڑ ، جلاؤ گھیراؤ ، عدم برداشت ، نا انصافی ، ملک پر نکتہ چینی اور سب سے بڑھ کر قابلیت و اہلیت کا قتل، جس کی وجہ سے ہر ادارہ زوال کی جانب گامزن ہے۔ تو پھر کیا کیا جائے ۔۔؟؟ بحیثیت خاتون اور ماں ہمارے دلوں کو اللہ نے نرم بھی بنایا ہے اور کمزور بھی، لیکن دوسری طرف ہمارے ارادے ، حوصلے ، پختہ عزم کے ساتھ روشن بھی ہوتے ہیں ۔ ہم جو کرنے کی ٹھان لیں وہ کرکے رہتے ہیں۔ 

ہمارے سامنے آئی دشواریاں و رکاوٹیں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ جب خالق کائنات نے اتنی خوبیاں صنف ِنازک کو عطا کی ہیں تو پھر کیوں نہ ہمارے ہاتھوں میں جو اولاد کی شکل میں بڑی ذمہ داری دی گئی ہے، جو کچی مٹی کی طرح نرم و ملائم ہے، جس کا دل، دماغ، سوچ ، فکر ہمارے زیر سایہ پروان چڑھتی ہے، پھر کیوں نہ ان پر محنت کی جائے۔ ایک بچے کے لیے ماں ہی اس کی آئیڈیل ہوتی ہے۔ ایک خاص عمر تک اس کی پوری دنیا اس کی ماں کی ذات میں سمٹی ہوئی ہوتی ہے۔ 

ماں کا کہا حرف آخر کا درجہ رکھتا ہے ۔ یہی وہ عمر ہے جب ہم مائوںنے ان کے دل اور دماغ میں وطن کی محبت بسانی ہے۔ اس مٹی کی خوشبو سے بڑھ کر کوئی خوشبو نہیں، انہی اسباق کے ساتھ اسے پروان چڑھانا ہے۔ وطن پر سب کچھ قربان کرنےکا درس دینا ہے ۔ایک ہونے اور ایک رہنے کے عہد کو دہرانا ہے۔ ملک میں جتنی قومیں ہیں یہ صرف پہچان کے لیے ہیں، حقیقت میں ہماری جڑیں ایک ہی مٹی کے اندر سموئی ہوئی ہیں۔ ہم ایک ایسے مضبوط اور گھنے پیڑ کے مانند ہیں ،جس کی شاخیں چاروں طرف پھیل کر پھل، پھول اور سایہ دے رہی ہیں۔ ہم نے اس مٹی کو اپنی انتھک محنت سے سینچنا ہے۔ 

برگ و بار لانا ہے اس کی جڑوں کو خود غرضی اور نفرت و عداوت سے اکھاڑنا نہیں بلکہ اپنا خون پسینہ دینا ہے ۔ یہ دن عہد تازہ کرنے،اپنا احتساب کرنےاور جائزے کا دن ہے۔ جھنڈے اور چراغاں کر کےاور پرچم کے ہم رنگ لباس سے آراستہ ہوکر خوشی کا وقتی اظہار کافی نہیں ، حقیقی مسرت تو وہ ہے جو دیرپا ہوتی ہے۔ اصل ہیرو تو وہ ہے، جس نے ملک و قوم کی بھلائی کے لیے کچھ کیا ہو، آپ کی ذاتِ آپ کے ملک کے لیے فائدہ مند ہو، لہٰذا جشن پاکستان سے پہلے انہیں ہر سطح پر منصفانہ احتساب کریں۔

سوچیں ،بچوں کی تربیت میں بہ حیثیت ماں میں نے اپنا کردار صحیح ادا کیا۔ بچپن سے انہیں صحیح قدم اُٹھانے کاکہا،یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اُنہیں آگاہی دے کرقدم پر سنبھلنے اور بڑھنے کے لیے سمجھایا جائے۔ اپنے کل کو سنوارنے کے لیے، آج پر محنت ضروری ہے اور اس کا آغاز اپنے بچوں، اپنی آنکھ کے تاروں سے کریں، تا کہ کل یہی تارے، نہ صرف سبز پرچم کے چاند تارے کے پاسبان ہوں ، بلکہ آسمان کے بھی ستارے بن کر چمکیں۔